كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي عِبَادَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: " حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ: رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ " قَالَ ابْنُ عُمَرَ: ((وَحَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ بِرَكْعَتَيِ الْغَدَاةِ، وَلَمْ أَكُنْ أَرَاهُمَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کابیان
’’سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں : میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعتیں یاد رکھیں۔ دو رکعت ظہر سے پہلے، دو اس کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد اور دو عشاء کے بعد۔ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں : مجھے (اُمّ المؤمنین سیّدہ) حفصہ رضی اللہ عنہا نے صبح کی دو رکعتیں بیان کی ہیں جب کہ میں ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں دیکھا۔‘‘
تشریح :
مغرب کے بعد کی دو رکعت پڑھنا بھی سنت ہے، ان دو رکعتوں کو جلدی ادا کرنا چاہیے، کیوں کہ مسند رزین میں روایت ہے کہ جس نے مغرب کی نماز ادا کی، پھر کلام کرنے سے پہلے دو رکعت پڑھیں تو اس کی نماز علیین میں اُٹھائی جاتی ہے۔ (مشکاة المصابیح (۱۱۸۴)۔ عن مکحول مرسلًا۔ قیام اللیل مروزي (ص:۳۱)۔ یہ روایت ابوصالح کاتب اللیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اور مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔)
’’ فَلَمْ أَکُنْ أَرَاہُمَا ‘‘ یعنی صبح کی سنتیں میں نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں دیکھیں بلکہ میری بہن سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتائیں۔ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ قول حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بتانے سے پہلے کے متعلق ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ یہ بعد کی بات ہے۔
یہاں اس روایت میں کہا کہ ان دو رکعتوں کو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں دیکھا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں گھر میں پڑھتے تھے۔ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں کہ یہ ایسا وقت ہوتا جس میں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ جاتا تھا۔ (صحیح بخاري، کتاب التهجد (التطوع)، باب التطوع بعد المکتوبة، حدیث:۱۱۷۳،۱۱۸۰۔)
تخریج :
اس حدیث کے دو حصے ہیں۔ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول اور اُمّ المؤمنین سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا قول۔ اوّل الذکر صحیح بخاري، کتاب التهجد، باب الرکعتین قبل الظهر (۳؍ ۱۱۸۰)، صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب فضل السنن الراتبۃ میں ہے اور سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا قول بیان کرنے میں امام ترمذی متفرد ہیں۔ شمائل ترمذی کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں، سوائے جعفر بن برقان کے اور ان کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ’’ تقریب ‘‘ میں فرماتے ہیں ’’ صُدُوْقٌ یَهِمُ ‘‘ کہ یہ صدوق ہے اور وہم میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت صحیح بخاري، سنن ترمذي اور مسند أحمد بن حنبل میں دس رکعتوں کے الفاظ سے بھی مروی ہے۔
مغرب کے بعد کی دو رکعت پڑھنا بھی سنت ہے، ان دو رکعتوں کو جلدی ادا کرنا چاہیے، کیوں کہ مسند رزین میں روایت ہے کہ جس نے مغرب کی نماز ادا کی، پھر کلام کرنے سے پہلے دو رکعت پڑھیں تو اس کی نماز علیین میں اُٹھائی جاتی ہے۔ (مشکاة المصابیح (۱۱۸۴)۔ عن مکحول مرسلًا۔ قیام اللیل مروزي (ص:۳۱)۔ یہ روایت ابوصالح کاتب اللیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اور مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔)
’’ فَلَمْ أَکُنْ أَرَاہُمَا ‘‘ یعنی صبح کی سنتیں میں نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں دیکھیں بلکہ میری بہن سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتائیں۔ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ قول حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بتانے سے پہلے کے متعلق ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ یہ بعد کی بات ہے۔
یہاں اس روایت میں کہا کہ ان دو رکعتوں کو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں دیکھا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں گھر میں پڑھتے تھے۔ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں کہ یہ ایسا وقت ہوتا جس میں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ جاتا تھا۔ (صحیح بخاري، کتاب التهجد (التطوع)، باب التطوع بعد المکتوبة، حدیث:۱۱۷۳،۱۱۸۰۔)