شمائل ترمذی - حدیث 276

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي عِبَادَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ،أَنَا حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَطَوُّعِهِ، فَقَالَتْ: ((كَانَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا، وَلَيْلًا طَوِيلًا قَاعِدًا، فَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ جَالِسٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ جَالِسٌ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 276

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کابیان ’’عبداللہ بن شفیق رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نماز کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی رات کا طویل حصہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور کبھی رات کا طویل حصہ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت کھڑے ہو کر کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی اسی حالت میں کرتے اور جب بیٹھ کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھے ہو ئے کرتے تھے۔‘‘
تشریح : طاقت کے باوجود بیٹھ کر پڑھنا: اس حدیث سے طاقت کے باوجود بیٹھ کر نفل نماز پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات مقرر ہے کہ کسی معذوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز اد اکی جائے تو اجر و ثواب پورا ملے گا اور اگر بلا عذر بیٹھ کر پڑھے تو نصف اجر کا حق دار ہو گا۔ یاد رہے کہ اس قاعدہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مستثنیٰ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر حال میں پورا اجر ملے گا۔ واللہ اعلم
تخریج : صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب جواز النافلة قائماً و قاعداً (۱؍۱۰۵ برقم ۵۰۴)، سنن ترمذي، أبواب الصلوٰة (۲؍۳۷۵)،وقال حدیث حسن صحیح۔ سنن أبي داود، کتاب الصلوٰة(۱؍۹۵۵)،وکتاب التطوع (۲؍۱۲۵۱)، سنن ابن ماجة، کتاب إقامة الصلوٰة (۱؍۱۲۲۸)، سنن نسائي، کتاب قیام اللیل (۳؍۱۶۴۵، ۱۶۴۶)، مسند احمد بن حنبل (۶؍۳۰، ۹۸، ۱۰۰، ۱۱۲، ۱۶۶، ۲۰۴، ۲۶۱, ۲۶۵) طاقت کے باوجود بیٹھ کر پڑھنا: اس حدیث سے طاقت کے باوجود بیٹھ کر نفل نماز پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات مقرر ہے کہ کسی معذوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز اد اکی جائے تو اجر و ثواب پورا ملے گا اور اگر بلا عذر بیٹھ کر پڑھے تو نصف اجر کا حق دار ہو گا۔ یاد رہے کہ اس قاعدہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مستثنیٰ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر حال میں پورا اجر ملے گا۔ واللہ اعلم