شمائل ترمذی - حدیث 266

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي عِبَادَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَزِيدَ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا لَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا لَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ فَقَالَ: ((يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 266

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کابیان ’’سعید بن ابی سعید مقبری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں انہوں نے خبر دی کہ میں نے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان المبارک میں (رات کی) نماز کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے تو ان کی حسنِ ادائیگی اور طوالتِ قیام کے بارے میں سوال ہی نہ کر۔ پھر چار رکعت پڑھتے تو ان کی خوبیٔ ادا اور طوالت کے بارے میں سوال نہ ہی کر، (کہ بہت اچھے طریقے اور لمبی قرأت کے ساتھ پڑھتے تھے) پھر تین رکعتیں ( وتر) پڑھتے۔‘‘ اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔‘‘
تشریح : بیس رکعت نمازِ تراویح کا ثبوت؟ ٭ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عام راتوں کی طرح قیامِ رمضان (نمازِ تراویح) بھی گیارہ رکعت ہیں بعض صحیح روایات میں اس سے کم اور بعض میں اس سے زائد بھی آیا ہے مثلاً تیرہ رکعت اس طرح بارہ رکعت بھی ہے جس سے تہجد فوت ہو جائے اس کے متعلق ہے کہ وہ بارہ رکعت صبح اور ظہر کے درمیان پڑھ لے۔( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب جامع صلاة اللیل، حدیث:۷۴۶۔) لیکن بیس رکعت کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع حدیث ثابت نہیں ہے بلکہ کوئی صحیح حدیث موقوفاً بھی ثابت نہیں ہے۔ بیس رکعت نماز تراویح کے بارے میں ایک مرفوع روایت پیش کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بغیر جماعت کے بیس رکعت پڑھتے تھے۔ لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے اس کی سند میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان سخت ضعیف راوی ہے۔ ائمہ جرح و تعدیل نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ حدیث صحیحین (بخاری و مسلم) کی روایات کے بھی خلاف ہے لہٰذا ناقابلِ احتجاج ہے۔ عامۃ الناس جو بیس رکعات نمازِ تراویح پڑھتے ہیں، انہیں از سر نو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کی اتباع میں ایساکرتے ہیں۔ دیکھا دیکھی اور بھیڑ چال میں کوئی عمل ادا کرنے سے بہتر ہے کہ صحیح احادیث پر عمل کیاجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ اعمال کی ہی ادائیگی کی جائے۔ واللہ ھوالموفق ٭ ’’تو ان کی حسنِ ادائیگی اور طولِ قیام کے بارے میں سوال ہی نہ کر۔‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کثرتِ رکعات سے طولِ قیام اور حسنِ ادائیگی زیادہ بہتر ہے جیساکہ حدیث میں بھی ہے کہ ’’أَفْضَلُ الصلاة طُوْلُ الْقُنُوْتِ‘‘(صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب أفضل الصلاة طول القنوت، حدیث:۷۵۶۔) بعض محدثین عظام فرماتے ہیں کہ ’’رات کو طولِ قیام بہتر ہے اور دن کو تکثیرِ رکوع و سجود۔‘‘
تخریج : صحیح بخاری، کتاب التهجد (۳؍۱۱۳۷)، و کتاب صلاة التراویح (۴؍۲۰۱۳)، و کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان، و کتاب المناقب (۶؍۳۵۶۹)، صحیح مسلم، کتاب صلوٰة المسافرین، باب صلوٰة اللیل و عدد رکعات النبي صلی الله علیه وسلم (۱؍۱۲۵ برقم ۵۰۹) بیس رکعت نمازِ تراویح کا ثبوت؟ ٭ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عام راتوں کی طرح قیامِ رمضان (نمازِ تراویح) بھی گیارہ رکعت ہیں بعض صحیح روایات میں اس سے کم اور بعض میں اس سے زائد بھی آیا ہے مثلاً تیرہ رکعت اس طرح بارہ رکعت بھی ہے جس سے تہجد فوت ہو جائے اس کے متعلق ہے کہ وہ بارہ رکعت صبح اور ظہر کے درمیان پڑھ لے۔( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب جامع صلاة اللیل، حدیث:۷۴۶۔) لیکن بیس رکعت کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع حدیث ثابت نہیں ہے بلکہ کوئی صحیح حدیث موقوفاً بھی ثابت نہیں ہے۔ بیس رکعت نماز تراویح کے بارے میں ایک مرفوع روایت پیش کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بغیر جماعت کے بیس رکعت پڑھتے تھے۔ لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے اس کی سند میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان سخت ضعیف راوی ہے۔ ائمہ جرح و تعدیل نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ حدیث صحیحین (بخاری و مسلم) کی روایات کے بھی خلاف ہے لہٰذا ناقابلِ احتجاج ہے۔ عامۃ الناس جو بیس رکعات نمازِ تراویح پڑھتے ہیں، انہیں از سر نو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کی اتباع میں ایساکرتے ہیں۔ دیکھا دیکھی اور بھیڑ چال میں کوئی عمل ادا کرنے سے بہتر ہے کہ صحیح احادیث پر عمل کیاجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ اعمال کی ہی ادائیگی کی جائے۔ واللہ ھوالموفق ٭ ’’تو ان کی حسنِ ادائیگی اور طولِ قیام کے بارے میں سوال ہی نہ کر۔‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کثرتِ رکعات سے طولِ قیام اور حسنِ ادائیگی زیادہ بہتر ہے جیساکہ حدیث میں بھی ہے کہ ’’أَفْضَلُ الصلاة طُوْلُ الْقُنُوْتِ‘‘(صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب أفضل الصلاة طول القنوت، حدیث:۷۵۶۔) بعض محدثین عظام فرماتے ہیں کہ ’’رات کو طولِ قیام بہتر ہے اور دن کو تکثیرِ رکوع و سجود۔‘‘