كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي عِبَادَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، (ح) وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَهِيَ خَالَتُهُ قَالَ: ((فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، فَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآيَاتِ الْخَوَاتِيمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا، فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي)) قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: " فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي ثُمَّ أَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى فَفَتَلَهَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ - قَالَ مَعْنٌ: سِتَّ مَرَّاتٍ - ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ "
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کابیان
’’سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’وہ ایک رات اپنی خالہ اُمّ المؤمنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سوئے۔ فرماتے ہیں : میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے طول میں لیٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتی کہ جب نصف رات ہوئی یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرے سے نیند دُور کرنے لگے اور سورت آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف اُٹھے اس سے اچھی طرح وضوء کیا۔ پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔‘‘ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طرف کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دائیں ہاتھ مبارک میرے سر پر رکھا پھر میرا دائیں کان پکڑ کر مروڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں۔‘‘ راوی معن کہتے ہیں : چھ مرتبہ ( دو دو رکعتیں پڑھیں )‘‘ پھر وتر پڑھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے حتی کہ مؤذن آیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد کی طرف) نکلے اور نمازِ فجر پڑھائی۔‘‘
تشریح :
حدیث الباب سے مستنبط مسائل
حدیث الباب سے کئی ایک فوائد حاصل ہوتے ہیں چند یہ ہیں :
۱۔ نیند سے بیدار ہو کر وضوء سے پہلے ہی قرآنِ کریم کی تلاوت کی جا سکتی ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت اٰل عمران کی دس آیات تلاوت کیں۔ ۲۔ عملِ قلیل سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ ۳۔ بچے کی نماز بھی صحیح اور درست ہے۔ ۴۔ بچہ بھی امام کی اسی جانب کھڑا ہو گا جہاں بڑا آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ ۵۔ نوافل کی جماعت درست ہے۔ ۶۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز دو دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ ۷۔ وتر قیام اللیل کے آخر میں پڑھا جائے۔ ۸۔ تہجد کے بعد استراحت کے لیے لیٹنا طریقہ نبوی ہے جب کہ دیگر روایات میں صبح کی سنتوں کے بعد لیٹنے کا ذکر ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں صبح کی دو سنتیں اد اکرنے کے بعد لیٹنا مستحب ہے۔ ۹۔ انبیاء کرام علیہم السلام کا سونا نواقض وضوء میں سے نہیں ہے۔ ۱۰۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بچپن سے ہی قیام اللیل کا ذوق رکھنے والے شب زندہ دار تھے۔
تخریج :
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب القرأة بعد الحدث وغیره و کتاب التهجد (۲؍۹۹۲ ) صحیح مسلم، کتاب صلوة المسافرین و قصرها، باب الدعاء في صلوٰة اللیل (۱؍۱۸۲، ۱۸۵، ۵۲۶، ۵۲۸)
حدیث الباب سے مستنبط مسائل
حدیث الباب سے کئی ایک فوائد حاصل ہوتے ہیں چند یہ ہیں :
۱۔ نیند سے بیدار ہو کر وضوء سے پہلے ہی قرآنِ کریم کی تلاوت کی جا سکتی ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت اٰل عمران کی دس آیات تلاوت کیں۔ ۲۔ عملِ قلیل سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ ۳۔ بچے کی نماز بھی صحیح اور درست ہے۔ ۴۔ بچہ بھی امام کی اسی جانب کھڑا ہو گا جہاں بڑا آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ ۵۔ نوافل کی جماعت درست ہے۔ ۶۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز دو دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ ۷۔ وتر قیام اللیل کے آخر میں پڑھا جائے۔ ۸۔ تہجد کے بعد استراحت کے لیے لیٹنا طریقہ نبوی ہے جب کہ دیگر روایات میں صبح کی سنتوں کے بعد لیٹنے کا ذکر ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں صبح کی دو سنتیں اد اکرنے کے بعد لیٹنا مستحب ہے۔ ۹۔ انبیاء کرام علیہم السلام کا سونا نواقض وضوء میں سے نہیں ہے۔ ۱۰۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بچپن سے ہی قیام اللیل کا ذوق رکھنے والے شب زندہ دار تھے۔