كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي عِبَادَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ،أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ؟ فَقَالَتْ: ((كَانَ يَنَامُ أَوَّلَ اللَّيْلِ ثُمَّ يَقُومُ، فَإِذَا كَانَ مِنَ السَّحَرِ أَوْتَرَ، ثُمَّ أَتَى فِرَاشَهُ، فَإِذَا كَانَ لَهُ حَاجَةٌ أَلَمَّ بِأَهْلِهِ، فَإِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ وَثَبَ، فَإِنْ كَانَ جُنُبًا أَفَاضَ عَلَيْهِ مِنَ الْمَاءِ، وَإِلَّا تَوَضَّأَ وَخَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کابیان
’’اسود بن یزید سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا تو انہوں فرمایا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی حصہ میں سو جاتے تھے۔ پھر اُٹھ کر قیام کرتے اور سحری کے قریب وتر پڑھتے، پھر اپنے بستر پر تشریف لاتے، اگر حاجت ہوتی تو اپنے گھر والوں کے پاس جاتے، پھر جب اذان ( صبح) سنتے تو تیزی سے اُٹھ پڑتے، اگر جنبی ہوتے تو اپنے بدن پر پانی بہاتے ورنہ وضو کر کے نماز کے لیے چلے جاتے۔‘‘
تشریح :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کی کیفیت:
٭ یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کی کیفیت بیان کی گئی ہے عددِ رکعات پر پیش آمدہ احادیث میں بحث ہو گی یہاں یہ بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کے بعد اپنے گھر والوں کے پاس جاتے یعنی اولیت عبادتِ الٰہی کو دی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رفیع کے مناسب ولائق بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس طرح کی ضرورت کو بعد میں ہی پورا کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصریحاً ثابت ہے کہ أَفْضَلُ الْقِیَامِ سیّدنا داؤد علیہ السلام کا ہے جو نصف رات استراحت فرما ہوتے پھر ثلث رات قیام کرتے اور پھر باقی سدس رات آرام فرماتے(صحیح بخاري، کتاب التهجد، باب من نام عند السحر، حدیث:۱۱۳۱۔)
٭ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اولی بات یہ ہے کہ جماع کو ابتداء نوم سے مؤخر کیا جائے تاکہ نیند طہارت پر ہو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے اور نیند کی وجہ سے اس میں سستی نہیں کرنا چاہیے۔قیام اللیل کی کیفیت دیگر احادیث سے کئی طریقوں پر بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ بسا اوقات اوّل رات غسل فرماتے اور بسا اوقات پچھلی رات، کئی دفعہ اوّل رات وتر پڑھتے اور کئی دفعہ پچھلی رات، اسی طرح بہت دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونچی قرأ ت کرتے اور بسا اوقات آہستہ پڑھتے۔( صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب صوم الدهر لمن ثاقت نفسه إلیه، حدیث: ۱۸۹؍۱۱۵۹۔ بمعناہ بلفظ ’’أحب الصلاة إلی اللّٰه صلاة داود...۔) واللہ اعلم
تخریج :
صحیح بخاری، کتاب التهجد، باب من نام أوّل اللیل وأحي آخره (۳؍۱۱۳۶)، صحیح مسلم، کتاب صلوٰة المسافرین، باب صلوٰة اللیل و عدد رکعات النبي صلی الله علیه وسلم (۱؍۱۲۹، برقم: ۵۱۰)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کی کیفیت:
٭ یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کی کیفیت بیان کی گئی ہے عددِ رکعات پر پیش آمدہ احادیث میں بحث ہو گی یہاں یہ بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کے بعد اپنے گھر والوں کے پاس جاتے یعنی اولیت عبادتِ الٰہی کو دی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رفیع کے مناسب ولائق بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس طرح کی ضرورت کو بعد میں ہی پورا کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصریحاً ثابت ہے کہ أَفْضَلُ الْقِیَامِ سیّدنا داؤد علیہ السلام کا ہے جو نصف رات استراحت فرما ہوتے پھر ثلث رات قیام کرتے اور پھر باقی سدس رات آرام فرماتے(صحیح بخاري، کتاب التهجد، باب من نام عند السحر، حدیث:۱۱۳۱۔)
٭ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اولی بات یہ ہے کہ جماع کو ابتداء نوم سے مؤخر کیا جائے تاکہ نیند طہارت پر ہو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے اور نیند کی وجہ سے اس میں سستی نہیں کرنا چاہیے۔قیام اللیل کی کیفیت دیگر احادیث سے کئی طریقوں پر بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ بسا اوقات اوّل رات غسل فرماتے اور بسا اوقات پچھلی رات، کئی دفعہ اوّل رات وتر پڑھتے اور کئی دفعہ پچھلی رات، اسی طرح بہت دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونچی قرأ ت کرتے اور بسا اوقات آہستہ پڑھتے۔( صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب صوم الدهر لمن ثاقت نفسه إلیه، حدیث: ۱۸۹؍۱۱۵۹۔ بمعناہ بلفظ ’’أحب الصلاة إلی اللّٰه صلاة داود...۔) واللہ اعلم