كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي عِبَادَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَا:أَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَفَخَتْ قَدَمَاهُ فَقِيلَ لَهُ: أَتَتَكَلَّفُ هَذَا وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ: ((أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کابیان
’’سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک متورم ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ کیا آپ اتنی تکلیف برداشت کرتے ہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اگلی اور پچھلی تمام لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے پاک ہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘
تشریح :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشقت طلب عبادت:
یہاں واجبات و فرائض سے زائد نماز مراد ہے۔ جس کو قرآن کریم میں نفل کہا گیا ہے: ﴿وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ۔﴾’’رات کو تہجد پڑھیں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زائد نماز ہے۔‘‘ نفل نماز میں محنت و اجتہاد کا ذکر بھی قرآنِ کریم میں ہے: ﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّی یَأْتِیَكَ الْیَقِیْنُ ﴾’’ اپنے رب کی عبادت و بندگی تا وقت وفات بجا لاتے رہو۔ ‘‘
حدیث الباب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مشقت طلب نفلی عبادت کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنی لمبی نماز پڑھتے اور اتنا لمبا قیام فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک میں ورم آجاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی مشقت طلب ذوق و شوق کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿یٰٓأَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ()قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا()نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًا()أَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا ﴾
’’ اے کپڑا اوڑھنے والے پیغمبر! رات کے وقت نماز میں کھڑے ہو جاؤ مگر کم۔ آدمی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر لیں یا اس پر بڑھا دیں اور قرآن کریم کو خوب ٹھہر کر پڑھیں۔‘‘
تکلف کے دو مفہوم:
٭ أَتَتَکَلَّفُ هٰذَا؟ ‘‘ تکلف کے دو مفہوم ہیں۔ ایک تو تصنع اور بناؤٹ ہے اور دوسرا معنی تحمل ہے اور یہاں دوسرا معنی ہی مراد ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کا حکم دیا ہے کہ ﴿وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْن﴾’’میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ کس قدر تحمل اور برداشت کے ساتھ طویل قیام کی مشقت اُٹھاتے ہیں حالانکہ آپ کے ذمے معصوم عن الخطاء ہونے کی وجہ سے کوئی گناہ یا لغزش ہے ہی نہیں۔ تو پھر اتنی لمبی عبادت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ (جب میرے پروردگار نے مجھ پر اتنے احسانات کیے ہیں )تو کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے مجھے معصوم عن الخطا رکھا ہے مگر پھر بھی میں اس کی رحمت اور فضل و کرم نیز بخشش سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی بدولت نجات نہیں پا سکتا۔ صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ؟ فرمایا: ’’ہاں میں بھی۔ الا یہ کہ مجھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب القصد والمداومةعلی العمل، حدیث:۶۴۶۷۔ صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقین باب لن یدخل أحد الجنة بعمله، حدیث:۲۸۱۸۔)
حضور علیہ السلام معصوم عن الخطاء تھے:
وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ: ’’اور یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اگلی اور پچھلی تمام لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔‘‘ بظاہر اس عبارت سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ لغزشیں اور خطائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ عزوجل نے انہیں اپنے عفو و کرم سے معاف کر دیا۔ حالانکہ انبیاء کرام علیہم السلام معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں اور ان سے خطائیں ہوتی ہی نہیں۔ علمائے کرام اور ائمہ مجتہدین نے اس کے کئی ایک جو ابات دیے ہیں۔ سورۃ فتح کی ابتدائی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’ اس سے مراد ترکِ اولیٰ والے معاملات یا وہ اُمور ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فہم و اجتہاد سے کیے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ناپسند فرمایا، جیسے عبداللہ بن اُمّ مکتوم رضی اللہ عنہ وغیرہ کا واقعہ ہے، جس پر سورۂ عبس کا نزول ہوا، یہ معاملات و اُمور اگرچہ گناہ اور منافیٔ عصمت نہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کوتاہیاں شمار کر لیا گیا، جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے۔‘‘ دراصل نیکی اور گناہ کا بندوں کے درجات سے بڑا تعلق ہے بعض اُمور جو عام مسلمانوں کے نزدیک نیکی سمجھے جاتے ہیں وہی کام اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کے ہاں نیکی کے بجائے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ’’حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ ‘‘ سے واضح ہے۔
٭ حدیث الباب سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے اطاعت و عبادت میں کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ نیز حدیث سے نفلی عبادات میں حتی الوسع مشقت برداشت کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔
تخریج :
صحیح بخاری،کتاب التفسیر،باب﴿لیغفرلك اللّٰه ما تقدم من ذنبك﴾(۸؍۴۸۳۶)،و کتاب التہجد (۳؍۱۱۳۰) ، صحیح مسلم،، کتاب صفات المنافقین و أحکامهم، باب إکثار الأعمال والاجتهاد (۴؍۷۹، برقم: ۲۱۷۱)۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشقت طلب عبادت:
یہاں واجبات و فرائض سے زائد نماز مراد ہے۔ جس کو قرآن کریم میں نفل کہا گیا ہے: ﴿وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ۔﴾’’رات کو تہجد پڑھیں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زائد نماز ہے۔‘‘ نفل نماز میں محنت و اجتہاد کا ذکر بھی قرآنِ کریم میں ہے: ﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّی یَأْتِیَكَ الْیَقِیْنُ ﴾’’ اپنے رب کی عبادت و بندگی تا وقت وفات بجا لاتے رہو۔ ‘‘
حدیث الباب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مشقت طلب نفلی عبادت کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنی لمبی نماز پڑھتے اور اتنا لمبا قیام فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک میں ورم آجاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی مشقت طلب ذوق و شوق کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿یٰٓأَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ()قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا()نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًا()أَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا ﴾
’’ اے کپڑا اوڑھنے والے پیغمبر! رات کے وقت نماز میں کھڑے ہو جاؤ مگر کم۔ آدمی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر لیں یا اس پر بڑھا دیں اور قرآن کریم کو خوب ٹھہر کر پڑھیں۔‘‘
تکلف کے دو مفہوم:
٭ أَتَتَکَلَّفُ هٰذَا؟ ‘‘ تکلف کے دو مفہوم ہیں۔ ایک تو تصنع اور بناؤٹ ہے اور دوسرا معنی تحمل ہے اور یہاں دوسرا معنی ہی مراد ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کا حکم دیا ہے کہ ﴿وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْن﴾’’میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ کس قدر تحمل اور برداشت کے ساتھ طویل قیام کی مشقت اُٹھاتے ہیں حالانکہ آپ کے ذمے معصوم عن الخطاء ہونے کی وجہ سے کوئی گناہ یا لغزش ہے ہی نہیں۔ تو پھر اتنی لمبی عبادت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ (جب میرے پروردگار نے مجھ پر اتنے احسانات کیے ہیں )تو کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے مجھے معصوم عن الخطا رکھا ہے مگر پھر بھی میں اس کی رحمت اور فضل و کرم نیز بخشش سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی بدولت نجات نہیں پا سکتا۔ صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ؟ فرمایا: ’’ہاں میں بھی۔ الا یہ کہ مجھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب القصد والمداومةعلی العمل، حدیث:۶۴۶۷۔ صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقین باب لن یدخل أحد الجنة بعمله، حدیث:۲۸۱۸۔)
حضور علیہ السلام معصوم عن الخطاء تھے:
وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ: ’’اور یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اگلی اور پچھلی تمام لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔‘‘ بظاہر اس عبارت سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ لغزشیں اور خطائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ عزوجل نے انہیں اپنے عفو و کرم سے معاف کر دیا۔ حالانکہ انبیاء کرام علیہم السلام معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں اور ان سے خطائیں ہوتی ہی نہیں۔ علمائے کرام اور ائمہ مجتہدین نے اس کے کئی ایک جو ابات دیے ہیں۔ سورۃ فتح کی ابتدائی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’ اس سے مراد ترکِ اولیٰ والے معاملات یا وہ اُمور ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فہم و اجتہاد سے کیے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ناپسند فرمایا، جیسے عبداللہ بن اُمّ مکتوم رضی اللہ عنہ وغیرہ کا واقعہ ہے، جس پر سورۂ عبس کا نزول ہوا، یہ معاملات و اُمور اگرچہ گناہ اور منافیٔ عصمت نہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کوتاہیاں شمار کر لیا گیا، جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے۔‘‘ دراصل نیکی اور گناہ کا بندوں کے درجات سے بڑا تعلق ہے بعض اُمور جو عام مسلمانوں کے نزدیک نیکی سمجھے جاتے ہیں وہی کام اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کے ہاں نیکی کے بجائے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ’’حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ ‘‘ سے واضح ہے۔
٭ حدیث الباب سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے اطاعت و عبادت میں کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ نیز حدیث سے نفلی عبادات میں حتی الوسع مشقت برداشت کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔