شمائل ترمذی - حدیث 254

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي نَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيلٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: ((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ فَأَتَاهُ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ، فَقَامَ وَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ)) وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 254

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کابیان ’’سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ ( ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے حتی کہ خراٹے لینے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سوتے تو خراٹے لیتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ آئے اور نماز کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور بغیر وضوء کیے نماز پڑھی۔ اس حدیث میں ایک واقعہ ہے۔
تشریح : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گہری نیند بھی سو جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضوء نہیں ٹوٹتا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سو جاتی ہیں مگر دل بیدار رہتا ہے۔ اُمت کے لیے یہ حکم نہیں ہے بلکہ اگر کوئی ٹیک لگا کر یا لیٹ کر سو جائے تو اس کا وضوء ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ تمام جوڑ اور اعضاء ڈھیلے پڑ جاتے ہیں تو وضوء کا رہنا یقینی نہیں ہوتا۔ حدیث میں موجود واقعہ کا تتمہ: امام ابو عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ صحیحین(صحیح بخاري، کتاب الدعوات، باب الدعاء إذا انتبه من اللیل، حدیث:۶۳۱۶۔ صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب صلاة النبی صلى الله علیه وسلم ودعاءه باللیل، حدیث:۷۶۳۔) میں سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات اپنی خالہ ام المومنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سویا، رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، قضائے حاجت سے فارغ ہو کر چہرہ اور ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے، پھر بیدار ہوئے اور مشکیزے سے پانی لے کر درمیانے درجہ کا وضو کیا اور نماز شروع کی، میں بھی اُٹھا اور وضو کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میرے کان سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ رکعت نماز پڑھی پھر لیٹ گئے۔ پھر سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ آئے اور نماز کی اطلاع دی۔ اس کے بعد باب کی مذکورہ حدیث بیان کی۔ اس واقعہ کے آخر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کے آغاز میں یہ دعا پڑھی: ((اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِيْ نُوْرًا وَفِيْ لِسَانِيْ نُوْرًا وَفِيْ بَصَرِيْ نُوْرًا وَفِيْ سَمْعِيْ نُوْرًا وَعَنْ یَمِیْنِي نُوْرًا وَعَنْ یَسَارِيْ نُوْرًا وَفَوْقِيْ نُوْرًا وَتَحْتِيْ نُوْرًا وَأَمَامِيْ نُوْرًا وَخَلْفِيْ نُوْرًا)) ’’اے اللہ! تو میرے دل میں نور پیدا کر دے، اور میری آنکھوں میں نور کر دے اور میرے کانوں میں نور کر دے، میرے دائیں اور بائیں نور کر دے، اور میری زبان میں نور پیدا کر دے میرے اوپر اور نیچے نور کر دے، میرے آگے اور پیچھے نور کر دے۔
تخریج : صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء إذا انتبه من اللیل (۱۱؍۶۳۱۶)۔ و کتاب الوضوء (۱؍۱۳۸)، و کتاب الأذان (۲؍۸۵۹)، صحیح مسلم، کتاب صلوٰة المسافرین، باب الدعاء في صلوٰة اللیل و قیامه (۱؍۱۸۱ برقم: ۵۲۵۔ ۵۲۶) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گہری نیند بھی سو جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضوء نہیں ٹوٹتا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سو جاتی ہیں مگر دل بیدار رہتا ہے۔ اُمت کے لیے یہ حکم نہیں ہے بلکہ اگر کوئی ٹیک لگا کر یا لیٹ کر سو جائے تو اس کا وضوء ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ تمام جوڑ اور اعضاء ڈھیلے پڑ جاتے ہیں تو وضوء کا رہنا یقینی نہیں ہوتا۔ حدیث میں موجود واقعہ کا تتمہ: امام ابو عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ صحیحین(صحیح بخاري، کتاب الدعوات، باب الدعاء إذا انتبه من اللیل، حدیث:۶۳۱۶۔ صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب صلاة النبی صلى الله علیه وسلم ودعاءه باللیل، حدیث:۷۶۳۔) میں سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات اپنی خالہ ام المومنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سویا، رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، قضائے حاجت سے فارغ ہو کر چہرہ اور ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے، پھر بیدار ہوئے اور مشکیزے سے پانی لے کر درمیانے درجہ کا وضو کیا اور نماز شروع کی، میں بھی اُٹھا اور وضو کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میرے کان سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ رکعت نماز پڑھی پھر لیٹ گئے۔ پھر سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ آئے اور نماز کی اطلاع دی۔ اس کے بعد باب کی مذکورہ حدیث بیان کی۔ اس واقعہ کے آخر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کے آغاز میں یہ دعا پڑھی: ((اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِيْ نُوْرًا وَفِيْ لِسَانِيْ نُوْرًا وَفِيْ بَصَرِيْ نُوْرًا وَفِيْ سَمْعِيْ نُوْرًا وَعَنْ یَمِیْنِي نُوْرًا وَعَنْ یَسَارِيْ نُوْرًا وَفَوْقِيْ نُوْرًا وَتَحْتِيْ نُوْرًا وَأَمَامِيْ نُوْرًا وَخَلْفِيْ نُوْرًا)) ’’اے اللہ! تو میرے دل میں نور پیدا کر دے، اور میری آنکھوں میں نور کر دے اور میرے کانوں میں نور کر دے، میرے دائیں اور بائیں نور کر دے، اور میری زبان میں نور پیدا کر دے میرے اوپر اور نیچے نور کر دے، میرے آگے اور پیچھے نور کر دے۔