شمائل ترمذی - حدیث 250

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي نَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ وَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى تَحْتَ خَدِّهِ الْأَيْمَنِ، وَقَالَ: ((رَبِّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 250

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کابیان ’’سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر میں تشریف لے جاتے تو اپنی دائیں ہتھیلی اپنے دائیں رخسار کے نیچے رکھتے اور یوں دعا کرتے: ((رَبِّ قِنِيْ عَذَابَكَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ)) ’’اے اللہ! جس دن تو اپنے بندوں کو ( حشر میں ) زندہ کرے تو مجھے اپنے عذاب سے محفو ظ رکھنا۔‘‘
تشریح : حدیث الباب میں سونے کا طریقہ اور سونے کی ایک دعا مذکور ہے۔ سونے کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں پہلو پر لیٹا جائے اور اپنا دائیں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھا جائے۔ ایسا کرنے سے دل (جو کہ بائیں جانب ہوتا ہے)اچھی طرح قرار میں نہیں ہوتا اس لیے بیداری بہت جلد ہو جاتی ہے اور ایک بندہ مومن کو قیام اللیل کے لیے نیز ذکر و اذکار کے لیے رات کا وقت میسر آجاتا ہے۔ اس طرح سونے میں اُمت کو تعلیم دینا بھی مقصود ہے کہ لیٹنے کا صحیح انداز کیا ہے۔ پیٹھ کے بل لیٹنا بہت بُرا ہے اور پیٹ کے بل لیٹنا اس سے بھی بُرا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک ایسے شخص کے قریب سے گذرے جو پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا تو آپ نے اسے پاؤں سے مارا اور فرمایا: ’’اُٹھو! یہ جہنمیوں کا لیٹنا ہے۔‘‘( سنن ابن ماجة، کتاب الأدب، باب النهي عن الاضطجاع علی الوجه، حدیث:۳۷۲۴۔) سونے کی دعا کے جو الفاظ حدیث میں مذکور ہیں ان کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند موت کی بہن ہے اور بیداری موت کے بعد اُٹھنے کی طرح ہے اس میں تعلیم یہ دی جارہی ہے کہ تصور کرو کہ شاید یہ تمہاری عمر کا آخری سونا ہو، اس لیے تمہارے آخری اعمال میں اللہ تعالیٰ کی یاد ہونی چاہیے۔
تخریج : یہ حدیث اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب الدعوات (۵؍۳۳۹۹)، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۲۸۱، ۲۹۰، ۲۹۸)، عمل الیوم اللیلة، للنسائي (۴۴۹، ۴۵۱)، الأدب المفرد للبخاري (۱۲۱۵، ۱۲۱۶) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو ’’فتح الباری ‘‘ میں صحیح قرار دیا ہے۔ أخلاق النبي صلی الله علیه وسلم لأبي الشیخ (ص : ۱۷۸) اس حدیث کے کئی ایک شواہد ہیں ان میں سے ایک سنن ابن ماجة (۲؍۳۸۷۷) اور مسند احمد (۱؍۳۹۴) میں ہے۔ اسی طرح اس حدیث کا ایک اور شاہد ’’حدیثِ حفصہ‘‘ بھی ہے جو سنن أبي داؤد، کتاب الأدب (۴؍۵۰۴۵) میں ہے، تیسرا شاہد سنن ترمذي، أبواب الدعوات (۵؍۳۳۹۸) میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے۔ لہٰذا یہ حدیث اپنے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔ حدیث الباب میں سونے کا طریقہ اور سونے کی ایک دعا مذکور ہے۔ سونے کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں پہلو پر لیٹا جائے اور اپنا دائیں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھا جائے۔ ایسا کرنے سے دل (جو کہ بائیں جانب ہوتا ہے)اچھی طرح قرار میں نہیں ہوتا اس لیے بیداری بہت جلد ہو جاتی ہے اور ایک بندہ مومن کو قیام اللیل کے لیے نیز ذکر و اذکار کے لیے رات کا وقت میسر آجاتا ہے۔ اس طرح سونے میں اُمت کو تعلیم دینا بھی مقصود ہے کہ لیٹنے کا صحیح انداز کیا ہے۔ پیٹھ کے بل لیٹنا بہت بُرا ہے اور پیٹ کے بل لیٹنا اس سے بھی بُرا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک ایسے شخص کے قریب سے گذرے جو پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا تو آپ نے اسے پاؤں سے مارا اور فرمایا: ’’اُٹھو! یہ جہنمیوں کا لیٹنا ہے۔‘‘( سنن ابن ماجة، کتاب الأدب، باب النهي عن الاضطجاع علی الوجه، حدیث:۳۷۲۴۔) سونے کی دعا کے جو الفاظ حدیث میں مذکور ہیں ان کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند موت کی بہن ہے اور بیداری موت کے بعد اُٹھنے کی طرح ہے اس میں تعلیم یہ دی جارہی ہے کہ تصور کرو کہ شاید یہ تمہاری عمر کا آخری سونا ہو، اس لیے تمہارے آخری اعمال میں اللہ تعالیٰ کی یاد ہونی چاہیے۔