كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي شَعْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ((كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، وَكَانَ لَهُ شَعْرٌ فَوْقَ الْجُمَّةِ وَدُونَ الْوَفْرَةِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں کا بیان
’’اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن سے اکٹھے غسل کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک جمہ سے کچھ اوپر اور وفرہ سے کم تھے۔ ‘‘
تشریح :
حدیث الباب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بالوں کا تذکرہ ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک جمّہ سے اوپر اور وفرہ سے کم تھے۔ جمہور اہل لغت کے مطابق وفرہ وہ بال ہو تے ہیں جو کانوں کی لوتک ہوں، لمّہ وہ بال جو کندھوں کے قریب پہنچ چکے ہوں، اور وفرہ سے کچھ لمبے ہوں، جُمّہ وہ بال جو کندھوں تک پڑتے ہوں، یعنی لمّہ سے کچھ لمبے ہوں اور اس حدیث کے الفاظ سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ میں اس طرح ہیں کہ: ((کَانَ شَعْرُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوْقَ الْوَفْرَةِ وَدُوْنَ الجمة۔)) (سنن أبي داود، کتاب الترجل، باب ما جاء في الشعر، حدیث:۴۱۸۷۔ سنن ترمذي (۱۷۵۵)۔ سنن ابن ماجة (۳۶۳۵)۔) یعنی ترمذی کی روایت کے برعکس ہیں۔ چنانچہ ترمذی کی روایات کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک جمہ سے کچھ اونچے تھے اور وفرہ سے کچھ نیچے تھے۔ تو اس صورت میں دونوں روایات کے معنی درست ہوجائیں گے، کیونکہ سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کی روایات کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک وفرہ سے کچھ لمبے اور جمہ سے کچھ چھوٹے تھے۔
حدیث کا یہ حصہ امام مسلم اور امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، کتاب اللباس (۴ ؍ ۱۷۵۵) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس سند کے ساتھ حسن صحیح غریب ہے۔ سنن بن ماجة، کتاب الطهارة (۱ ؍ ۶۰۴)، سنن أبي داود، کتاب الطهارة (۱ ؍ ۷۷)، مسند أحمد بن حنبل (۶ ؍ ۱۱۸)۔
حدیث الباب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بالوں کا تذکرہ ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک جمّہ سے اوپر اور وفرہ سے کم تھے۔ جمہور اہل لغت کے مطابق وفرہ وہ بال ہو تے ہیں جو کانوں کی لوتک ہوں، لمّہ وہ بال جو کندھوں کے قریب پہنچ چکے ہوں، اور وفرہ سے کچھ لمبے ہوں، جُمّہ وہ بال جو کندھوں تک پڑتے ہوں، یعنی لمّہ سے کچھ لمبے ہوں اور اس حدیث کے الفاظ سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ میں اس طرح ہیں کہ: ((کَانَ شَعْرُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوْقَ الْوَفْرَةِ وَدُوْنَ الجمة۔)) (سنن أبي داود، کتاب الترجل، باب ما جاء في الشعر، حدیث:۴۱۸۷۔ سنن ترمذي (۱۷۵۵)۔ سنن ابن ماجة (۳۶۳۵)۔) یعنی ترمذی کی روایت کے برعکس ہیں۔ چنانچہ ترمذی کی روایات کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک جمہ سے کچھ اونچے تھے اور وفرہ سے کچھ نیچے تھے۔ تو اس صورت میں دونوں روایات کے معنی درست ہوجائیں گے، کیونکہ سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کی روایات کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک وفرہ سے کچھ لمبے اور جمہ سے کچھ چھوٹے تھے۔
حدیث کا یہ حصہ امام مسلم اور امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔