كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّمَرِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ کِلَاهُمَا عَنْ عِیسٰی وَاللَّفْظُ لِابْنِ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنِ أَخِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ،أَنَّهَا قَالَتْ: جَلَسَ إِحْدَى عَشْرَةَ امْرَأَةً فَتَعَاهَدْنَ وَتَعَاقَدْنَ أَنْ لَا يَكْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ شَيْئًا: فَقَالَتِ الْأُولَى: زَوْجِي لَحْمُ جَمَلٍ غَثٍّ عَلَى رَأْسِ جَبَلٍ وَعْرٍ، لَا سَهْلٌ فَيُرْتَقَى، وَلَا سَمِينٌ فَيُنْتَقَلُ. قَالَتِ الثَّانِيَةُ: زَوْجِي لَا أَبُثُّ خَبَرَهُ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا أَذَرَهُ، إِنْ أَذْكُرْهُ أَذْكُرْ عُجَرَهُ وَبُجَرَهُ. قَالَتِ الثَّالِثَةُ: زَوْجِي الْعَشَنَّقُ، إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ، وَإِنْ أَسْكُتْ أُعَلَّقْ. قَالَتِ الرَّابِعَةُ: زَوْجِي كَلَيْلِ تِهَامَةَ، لَا حَرٌّ وَلَا قُرٌّ، وَلَا مَخَافَةَ وَلَا سَآمَةَ. قَالَتِ الْخَامِسَةُ: زَوْجِي إِنْ دَخَلَ فَهِدَ، وَإِنْ خَرَجَ أَسِدَ، وَلَا يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ. قَالَتِ السَّادِسَةُ: زَوْجِي إِنْ أَكَلَ لَفَّ، وَإِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ، وَإِنِ اضْطَجَعَ الْتَفَّ، وَلَا يُولِجُ الْكَفَّ لِيَعْلَمَ الْبَثَّ. قَالَتِ السَّابِعَةُ: زَوْجِي عَيَايَاءُ أَوْ غَيَايَاءُ طَبَاقَاءُ كُلُّ دَاءٍ لَهُ دَاءٌ، شَجَّكِ أَوْ فَلَّكِ أَوْ جَمَعَ كُلًّا لَكِ. قَالَتِ الثَّامِنَةُ: زَوْجِي الْمَسُّ مَسُّ أَرْنَبٍ وَالرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ. قَالَتِ التَّاسِعَةُ: زَوْجِي رَفِيعُ الْعِمَادِ طَوِيلُ النِّجَادِ عَظِيمُ الرَّمَادِ قَرِيبُ الْبَيْتِ مِنَ النَّادِ. قَالَتِ الْعَاشِرَةُ: زَوْجِي مَالِكٌ وَمَا مَالِكٌ مَالِكٌ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكِ، لَهُ إِبِلٌ كَثِيرَاتُ الْمَبَارِكِ، قَلِيلَاتُ الْمَسَارِحِ، إِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ أَنَّهُنَّ هَوَالِكُ. قَالَتِ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ: زَوْجِي أَبُو زَرْعٍ وَمَا أَبُو زَرْعٍ؟ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ، وَمَلَأَ مِنْ شَحْمٍ عَضُدَيَّ، وَبَجَّحَنِي فَبَجَحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي، وَجَدَنِي فِي أَهْلِ غُنَيْمَةٍ بِشِقٍّ فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ وَأَطِيطٍ وَدَائِسٍ وَمُنَقٍّ، فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلَا أُقَبَّحُ، وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ وَأَشْرَبُ فَأَتَقَمَّحُ، أُمُّ أَبِي زَرْعٍ فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ، عُكُومُهَا رَدَاحٌ، وَبَيْتُهَا فَسَاحٌ، ابْنُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا ابْنُ أَبِي زَرْعٍ، مَضْجَعُهُ كَمَسَلِّ شَطْبَةٍ، وَتُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ، بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ، طَوْعُ أَبِيهَا وَطَوْعُ أُمِّهَا، مِلْءُ كِسَائِهَا، وَغَيْظُ جَارَتِهَا، جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ، لَا تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا، وَلَا تُنَقِّثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا، وَلَا تَمْلَأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا، قَالَتْ: خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَالْأَوْطَابُ تُمْخَضُ، فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا وَلَدَانِ لَهَا كَالْفَهْدَيْنِ، يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا بِرُمَّانَتَيْنِ، فَطَلَّقَنِي وَنَكَحَهَا، فَنَكَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلًا سَرِيًّا، رَكِبَ شَرِيًّا، وَأَخَذَ خَطِّيًّا، وَأَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا ثَرِيًّا، وَأَعْطَانِي مِنْ كُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا، وَقَالَ: كُلِي أُمَّ زَرْعٍ، وَمِيرِي أَهْلَكِ، فَلَوْ جَمَعْتُ كُلَّ شَيْءٍ أَعْطَانِيهِ، مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((كُنْتُ لَكِ كَأَبِي زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے وقت گفتگو کرنا
’’امّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ گیارہ عورتیں (ایک جگہ) جمع ہو کر بیٹھیں، انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ وہ اپنے اپنے خاوند کا صحیح حال بیان کریں اور کوئی بات نہ چھپائیں۔ چنانچہ پہلی عورت بولی: میرے خاوند کی مثال دبلے اونٹ کے گوشت کی طرح ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر ہے جس کا راستہ بہت دشوار گذار ہے کہ نہ تو آسانی سے چڑھ کر کوئی اسے لا سکتا ہے اور نہ ہی وہ گوشت ایسا موٹا تازہ ہے جسے لانے کے لیے کوئی اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے۔دوسری عورت نے کہا: میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہاں تک بیان کروں (اس میں اتنے عیب ہیں ) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کر سکوں گی، پھر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب بیان کر سکتی ہوں۔تیسری عورت نے کہا: میرا خاوند ناپسندیدہ قد کاٹھ کا لمبا تڑنگا آدمی ہے اگر اس کے بارے میں کچھ بولوں تو طلاق ہو جائے گی اور اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی ہوں۔چوتھی عورت نے کہا: میرا خاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل ہے نہ زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا، اس سے مجھے کوئی خوف ہے نہ اُکتاہٹ ہے۔پانچویں نے کہا: میرا خاوند گھر میں آتا ہے تو ایک چیتے کی طرح اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر کی طرح، جو چیز گھر میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں پوچھتا (کہ اتنا بے پرواہ ہے۔) اور سخی اتنا ہے کہ جو آج کمایا اسے آج ہی خرچ کیا کل تک کے لیے اُٹھا نہیں رکھتا۔چھٹی عورت نے کہا: میرا خاوند اگر کھائے تو سب کچھ لپیٹ جائے اگر پیے تو ایک بوند بھی نہیں چھوڑتا، اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لے کر الگ پڑا رہتا ہے میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دُکھ درد معلوم کرے۔ساتویں عورت کہنے لگی: میرا خاوند جاہل یا مست یا نامرد ہے دنیا میں جتنے عیب لوگوں میں ایک ایک کر کے جمع ہیں وہ سب اس اکیلے کی ذات میں جمع ہیں، (کوئی پتا نہیں کب) سر پھوڑ ڈالے یا ہاتھ توڑ ڈالے یا دونوں کام کر ڈالے۔آٹھویں عورت نے کہا: میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے اور سونگھو تو زعفران جیسا خوشبودار ہے۔نوویں عورت نے کہا: میرے خاوند کا گھر بہت اونچا اور بلند ہے۔ وہ خود قدآور اور بہادر ہے۔ اس کے یہاں کھانا اس قدر پکتا ہے کہ راکھ کے ڈھیر کے ڈھیر جمع ہیں، لوگ جہاں صلاح مشورہ کے لیے بیٹھتے ہیں میرے خاوند کا گھر اس جگہ سے بہت قریب ہے۔دسویں عورت نے کہا: میرا خاوند بڑا مال دار ہے اور جائیدادوالا ہے، جائیداد بھی ایسی کہ اتنی کسی کے پاس نہیں ہو سکتی، بہت سارے اونٹ اس کے گھر کے پاس بیٹھے رہتے ہیں اور جنگل میں چرنے کم جاتے ہیں، جیسے ہی یہ باجے کی آواز سنتے ہیں انہیں اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔گیارھویں عورت کہنے لگی: میرا خاوند ابو زرع ہے، اس کا کیا کہنا۔ اس نے میرے کان زیوروں سے اور بازو چربی سے بھر دیے ہیں، مجھے خوب کھلا کر اس نے اتنا فربہ کر دیا ہے کہ میں خود بھی اپنے آپ کو موٹی تازی اور فربہ سمجھنے لگی ہوں،شادی سے پہلے میں تھوڑی سی بھیڑ بکریوں میں تنگی و ترشی سے گذر بسر کرتی تھی، ابوزرع نے مجھے گھوڑوں، اونٹوں، کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیا ہے، اتنی زیادہ جائیداد و دولت ہونے کے باوجود اس کا مزاج اتنا عمدہ ہے کہ بات کہوں تو بُرا نہیں مانتا، سوئی پڑی ہوں تو صبح تک مجھے کوئی بھی بیدار نہیں کرتا، میں پانی پیوں تو خوب سیراب ہو کر با فراغت پیتی ہوں۔ رہی ابو زرع کی والدہ (میری ساس) تو میں اس کی کیا کیا خوبیاں بیان کروں ؟ اس کا توشہ خانہ مال و اسباب سے بھرا ہو ا، اس کا گھر بہت ہی کشادہ۔ رہا ابو زرع کا بیٹا تو وہ بھی کیسا اچھا اور خوبصورت ہے۔ وہ ننگی تلوار کی طرح حسن وجمال میں چمک دار ہے اور ایسا کم خوراک کہ بکری کے چارماہ کے بچے کی دستی کا گوشت اس کا پیٹ بھر دے۔ رہی ابو زرع کی بیٹی! اس کے بھی کیا کہنے؟ وہ اپنے باپ کی پیاری، ماں کی دلاری، تابع دار اور فرماں بردار و اطاعت گذار، کپڑا بھر پور پہننے والی (فربہ اندام) جو اپنی سوتن کے جلن کا باعث بنے۔ رہی ابو زرع کی لونڈی! تو اس کے کیا کہنے؟ ہماری کوئی بات اور راز کبھی افشا نہیں کرتی، کھانے نہیں چراتی اور کوڑا کچرا نہیں چھوڑتی، مگر ایک دن ایسا ہوا کہ لوگ مکھن نکالنے کا دودھ مَل رہے تھے کہ صبح دم ابو زرع گھر سے باہر گیا اچانک اس نے ایک عورت دیکھی جس کے چیتوں جیسے دو بچے اس کی کمر کے تلے دو اناروں (پستانوں ) سے کھیل رہے تھے۔ ابو زرع نے مجھے طلاق دے کر اس سے نکاح کر لیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اور شرافت کے پیکر سردار سے نکاح کر لیا جو گھڑ سواری کا ماہر، عمدہ نیزہ باز اور تلوار کا دھنی ہے اس نے بھی مجھے بہت سے جانور (گھوڑے، اونٹ اور بکریاں ) دے رکھے ہیں اور ہر قسم کے مال و اسباب میں سے ایک ایک جوڑا دیا ہوا ہے اور مجھ سے کہا کرتا ہے کہ اُمّ زرع! خوب کھا پی، اپنے عزیز و اقارب کو بھی خوب کھلا پلا، تیرے لیے عام اجازت ہے مگر یہ سب کچھ جو بھی اس نے مجھے دیا ہوا ہے اگر اکٹھا کروں تو ابو زرع کے ایک جھوٹے برتن کو بھی نہیں پہنچتا۔ اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہارے لیے ابوزرع کی طرح ہوں جس طرح وہ اُمّ زرع کے لیے تھا۔‘‘
تشریح :
حدیث الباب میں گیارہ عورتوں کا جو طویل قصہ منقول ہے اس کے سببِ ورود کے بارے میں امام نسائی رحمہ اللہ(السنن الکبری للنسائي (۹۱۳۹)۔)نےاُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے والدِ محترم سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مال پر فخر کیا کہ ایامِ جاہلیت میں ان کے پاس دس لاکھ اوقیہ چاندی تھی اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ خاموش ہو جا۔ میں تو تیرے لیے اس طرح ہوں جس طرح ابو زرع اُمّ زرع کے لیے تھا۔‘‘
ابو القاسم عن الحکیم بن حبان نے اسود بن جبر مغافری سے بیان کیا ہے ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو سیّدہ عائشہ اور سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہماکے درمیان کچھ بات چل گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! میری بیٹی کے متعلق تو باز نہیں آتی۔ میری اور تیری مثال اسی طرح ہے جس طرح ابو زرع اُمّ زرع کے ساتھ تھا۔ ‘‘ تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں ان کی بات بتائیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ قصہ بیان کیا۔
زبیر بن بکار کی روایت میں ہے سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میرے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دوسری عورتیں بھی موجود تھیں تو مجھے خاص کر کے فرمایا: ’’ اے عائشہ! میں تیرے لیے ابو زرع کی طرح ہوں جس طرح وہ اُمّ زرع کے لیے تھا۔‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کا قصہ کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یمن کی بستیوں میں سے ایک بستی تھی، وہاں یمنیوں کا ایک خاندان رہتا تھا ان میں گیارہ عورتیں ایک دن اکٹھی بیٹھیں ....الخ۔‘‘
گیارہ عورتوں کے قصے سے مستنبط فوائد:
حدیث الباب کئی ایک فوائد کو متضمن ہے چند فوائد مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ اپنے اہل و عیال سے حسنِ معاشرت نہایت عمدہ اخلاق میں سے ہے۔
۲۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
۳۔ رات کو عشاء کے بعد باتیں کرنا اور گذشتہ ادوار کے قصے کہانیاں سننا سنانا جائز ہے بشرطیکہ فرائض میں غفلت کا اندیشہ نہ ہو۔
۴۔ مشبہ میں مشبہ بہ کے ساتھ من کل الوجوہ تشبیہ ضروری نہیں ہے۔
۵۔ طلاق کے کنایوں سے طلاق کا وقوع لازم نہیں آتا۔ جب تک طلاق کی نیت نہ کرے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے لیے ابو زرع کی طرح ہوں۔‘‘ جب کہ ابو زرع نے تو طلاق بھی دی تھی مگر چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشبیہ دینے سے یہ نیت نہیں تھی اس لیے محض تشبیہ دینے سے وقوع طلاق نہیں ہوا۔
باب ما جاء في کلام رسول اللّٰه صلی الله علیه وسلم فی السمرمکمل ہوا۔
والحمد لله علی ذالك
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب النکاح، باب حسن المعاشرة مع الأهل، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضل عائشة رضي الله عنها۔
حدیث الباب میں گیارہ عورتوں کا جو طویل قصہ منقول ہے اس کے سببِ ورود کے بارے میں امام نسائی رحمہ اللہ(السنن الکبری للنسائي (۹۱۳۹)۔)نےاُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے والدِ محترم سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مال پر فخر کیا کہ ایامِ جاہلیت میں ان کے پاس دس لاکھ اوقیہ چاندی تھی اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ خاموش ہو جا۔ میں تو تیرے لیے اس طرح ہوں جس طرح ابو زرع اُمّ زرع کے لیے تھا۔‘‘
ابو القاسم عن الحکیم بن حبان نے اسود بن جبر مغافری سے بیان کیا ہے ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو سیّدہ عائشہ اور سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہماکے درمیان کچھ بات چل گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! میری بیٹی کے متعلق تو باز نہیں آتی۔ میری اور تیری مثال اسی طرح ہے جس طرح ابو زرع اُمّ زرع کے ساتھ تھا۔ ‘‘ تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں ان کی بات بتائیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ قصہ بیان کیا۔
زبیر بن بکار کی روایت میں ہے سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میرے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دوسری عورتیں بھی موجود تھیں تو مجھے خاص کر کے فرمایا: ’’ اے عائشہ! میں تیرے لیے ابو زرع کی طرح ہوں جس طرح وہ اُمّ زرع کے لیے تھا۔‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کا قصہ کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یمن کی بستیوں میں سے ایک بستی تھی، وہاں یمنیوں کا ایک خاندان رہتا تھا ان میں گیارہ عورتیں ایک دن اکٹھی بیٹھیں ....الخ۔‘‘
گیارہ عورتوں کے قصے سے مستنبط فوائد:
حدیث الباب کئی ایک فوائد کو متضمن ہے چند فوائد مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ اپنے اہل و عیال سے حسنِ معاشرت نہایت عمدہ اخلاق میں سے ہے۔
۲۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
۳۔ رات کو عشاء کے بعد باتیں کرنا اور گذشتہ ادوار کے قصے کہانیاں سننا سنانا جائز ہے بشرطیکہ فرائض میں غفلت کا اندیشہ نہ ہو۔
۴۔ مشبہ میں مشبہ بہ کے ساتھ من کل الوجوہ تشبیہ ضروری نہیں ہے۔
۵۔ طلاق کے کنایوں سے طلاق کا وقوع لازم نہیں آتا۔ جب تک طلاق کی نیت نہ کرے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے لیے ابو زرع کی طرح ہوں۔‘‘ جب کہ ابو زرع نے تو طلاق بھی دی تھی مگر چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشبیہ دینے سے یہ نیت نہیں تھی اس لیے محض تشبیہ دینے سے وقوع طلاق نہیں ہوا۔
باب ما جاء في کلام رسول اللّٰه صلی الله علیه وسلم فی السمرمکمل ہوا۔
والحمد لله علی ذالك