شمائل ترمذی - حدیث 245

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشِّعْرِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْشَدْتُهُ مِائَةَ قَافِيَةٍ مِنْ قَوْلِ أُمَيَّةَ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ الثَّقَفِيِّ، كُلَّمَا أَنْشَدْتُهُ بَيْتًا قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((هِيهْ)) حَتَّى أَنْشَدْتُهُ مِائَةً - يَعْنِي بَيْتًا - فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنْ كَادَ لَيُسْلِمُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 245

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشعار کہنے کاانداز ’’ عمرو بن شرید اپنے والد (سیّدنا شرید بن سوید رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمیہ بن ابی الصلتثقفی کے سو اشعار سنائے۔ میں جب بھی ایک شعر پڑھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : ’’اور مزید پڑھو ‘‘یہاں تک کہ میں نے سو شعر پورے کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قریب تھا کہ وہ مسلمان ہو جاتا۔‘‘
تشریح : اُمیہ بن ابی ا لصلت کون تھا؟ اُمیہ بن ابی ا لصلت جاہلی شعراء میں سے تھا۔ اس کو اسلام کا ظہور پہنچا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام لانے کی توفیق نہیں بخشی۔ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا کہ ’’ اس کی زبان مسلمان ہے مگر دل کافر ہے۔‘‘( تاریخ دمشق لابن عساکر (۹؍۲۷۲)۔) کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قیامت کو مانتا تھا۔طہارت و پاکیزگی کا خیال رکھتا اور اسے اپنے شعروں میں اچھے خلق سے تعبیر کرتا تھا۔ سیّدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہ آیت اس کے متعلق نازل ہوئی: ﴿ وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ الَّذِيْ اٰتَیْنٰهُ اٰیَاتِنَا فَاْنسَلخَ مِنْهَا ﴾(الاعراف:۱۷۵) ’’ان پر اس شخص کی خبر پڑھیے جس کو ہم نے اپنی نشانیاں دیں تو وہ ان سے آگے نکل گیا۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ اس نے تورات اور انجیل بھی پڑھی ہوئی تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان دونوں کتابوں میں موجود علامات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی واقف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے والی ہے، پھر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا تاج پہنایا گیا تو یہ حسد کرنے لگا اور مسلمان نہ ہوا۔ تحریرات کے شروع میں ’’بِاسْمِكَ اللّٰهُمَّ ‘‘ اس نے لکھنا شروع کیا، قریش نے یہ بات اسی سے سیکھی تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ایک شعر سنا تو فرمایا: ’’قریب ہے کہ یہ مسلمان ہو جائے۔‘‘ وہ شعر یہ تھا: لَكَ الْحَمْدُ وَالنَّعْمَاءُ وَالْفَضْلُ رَبَّنَا فَلَا شَيْئَ أَعْلیٰ مِنْكَ حَمْدًا وَّ مَجْدًا ’’اے ہمارے رب! نعمتیں، تعریفیں اور فضل تیرے لیے ہی ہیں۔تعریف اور بزرگی میں کوئی بھی دوسری چیز تجھ سے بڑھ کر نہیں ہے۔‘‘ حدیث الباب سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھے شعر سننا اور یاد رکھنا جائز ہے۔ نیز سفر کی مسافت کاٹنے کے لیے دورانِ سفر اچھے اشعار پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک سواری (اونٹ، گھوڑا، موٹر سائیکل) پر ایک سے زائد سوار آگے پیچھے بیٹھ سکتے ہیں۔
تخریج : صحیح مسلم، کتاب الشعر (۴؍۱، برقم: ۱۷۶۷)، سنن ابن ماجة، کتاب الأدب (۲؍۳۷۵۸)، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۳۸۹، ۳۹۰)۔ اُمیہ بن ابی ا لصلت کون تھا؟ اُمیہ بن ابی ا لصلت جاہلی شعراء میں سے تھا۔ اس کو اسلام کا ظہور پہنچا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام لانے کی توفیق نہیں بخشی۔ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا کہ ’’ اس کی زبان مسلمان ہے مگر دل کافر ہے۔‘‘( تاریخ دمشق لابن عساکر (۹؍۲۷۲)۔) کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قیامت کو مانتا تھا۔طہارت و پاکیزگی کا خیال رکھتا اور اسے اپنے شعروں میں اچھے خلق سے تعبیر کرتا تھا۔ سیّدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہ آیت اس کے متعلق نازل ہوئی: ﴿ وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ الَّذِيْ اٰتَیْنٰهُ اٰیَاتِنَا فَاْنسَلخَ مِنْهَا ﴾(الاعراف:۱۷۵) ’’ان پر اس شخص کی خبر پڑھیے جس کو ہم نے اپنی نشانیاں دیں تو وہ ان سے آگے نکل گیا۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ اس نے تورات اور انجیل بھی پڑھی ہوئی تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان دونوں کتابوں میں موجود علامات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی واقف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے والی ہے، پھر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا تاج پہنایا گیا تو یہ حسد کرنے لگا اور مسلمان نہ ہوا۔ تحریرات کے شروع میں ’’بِاسْمِكَ اللّٰهُمَّ ‘‘ اس نے لکھنا شروع کیا، قریش نے یہ بات اسی سے سیکھی تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ایک شعر سنا تو فرمایا: ’’قریب ہے کہ یہ مسلمان ہو جائے۔‘‘ وہ شعر یہ تھا: لَكَ الْحَمْدُ وَالنَّعْمَاءُ وَالْفَضْلُ رَبَّنَا فَلَا شَيْئَ أَعْلیٰ مِنْكَ حَمْدًا وَّ مَجْدًا ’’اے ہمارے رب! نعمتیں، تعریفیں اور فضل تیرے لیے ہی ہیں۔تعریف اور بزرگی میں کوئی بھی دوسری چیز تجھ سے بڑھ کر نہیں ہے۔‘‘ حدیث الباب سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھے شعر سننا اور یاد رکھنا جائز ہے۔ نیز سفر کی مسافت کاٹنے کے لیے دورانِ سفر اچھے اشعار پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک سواری (اونٹ، گھوڑا، موٹر سائیکل) پر ایک سے زائد سوار آگے پیچھے بیٹھ سکتے ہیں۔