شمائل ترمذی - حدیث 242

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشِّعْرِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ،أَنْبَانَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ، وَابْنُ رَوَاحَةَ يَمْشِي بَيْنَ يَدَيْهِ، وَهُوَ يَقُولُ: خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهْ ... الْيَوْمَ نَضْرِبُكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهْ ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهْ ... وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهْ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا ابْنَ رَوَاحَةَ، بَيْنَ يَدِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي حَرَمِ اللَّهِ تَقُولُ الشِّعْرَ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((خَلِّ عَنْهُ يَا عُمَرُ، فَلَهِيَ أَسْرَعُ فِيهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 242

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشعار کہنے کاانداز ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۂ قضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو سیدنا عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چل رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے: ’’اے فرزندانِ کفار! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ چھوڑ دو، آج ہم تمہیں قرآن کے حکم کے مطابق ایسی ضرب لگائیں گے جس سے تمہارے سر جسموں سے جدا ہوجائیں گے اور وہ ضرب دوست کو دوست سے غافل کردے گی۔‘‘ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن رواحہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’اے ابن رواحہ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے اور اللہ کے حرم میں تم شعر کہہ رہے ہو؟‘‘ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمر! اسے چھوڑ دو۔ یہ اشعار تو ان کفار پر تیروں سے بھی زیادہ تیز اور شدید انداز میں واقع ہورہے ہیں۔‘‘
تشریح : کفار کو اذیت دینے والے شعر کہنا درست ہے: ٭ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسا کام اور اقدام جس سے کفار کو اذیت پہنچے، جائز ہے مگر یاد رہے کہ یہ جنگ کے موقع پر ہے جب امان ہو تو ان کو برا کہنے اور ان سے چھیڑ چھاڑ کی ممانعت ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: ﴿ وَلَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوْا اللّٰهَ بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾(الانعام:۱۰۸) کہ ’’مشرکوں کے معبودوں کو گالیاں نہ دو، ورنہ وہ بے علمی میں تمہارے معبود کو گالیاں دیں گے۔‘‘ ٭ حرمِ پاک میں ایسے اشعار پڑھے جاسکتے ہیں جن میں اسلام کی عظمت و رفعت اور غیر مسلموں کی اہانت و تحقیر کا بیان ہو۔ ٭ عباداتِ نافلہ شروع کرنے کے بعد اگر درمیان میں ہی توڑ دی جائیں تو واجب القضاء ہوجاتی ہیں، جیسا کہ حدیث الباب میں عمرۃ القضاء کا ذکر ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے چھٹے سال نفلی عمرہ شروع کیا مگر کفار کی رکاوٹ اور پھر صلح حدیبیہ کے پیش نظر اسے توڑ دیا اور اگلے سال اس کی قضاء سر انجام دی۔
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب الأدب، باب ما جاء في إنشاد الشعر (۵؍۲۸۴۷)، سنن نسائي، کتاب الحج، باب إنشاد الشعر في الحرم والمشي بین یدي الإمام (۵؍۲۸۷۳)، صحیح ابن خزیمة (۴؍۱۹۹)، سنن بیهقي (۱۰؍۲۲۸)، شرح السنة (۱۲؍۳۷۵)، حلیة الأولیاء (۶؍۲۹۲)، مسند ابي یعلی الموصلي (۳۴۲۸، ۳۳۸۱) امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی سنن میں اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ ’’ هذا حدیث حسن صحیح غریب من هذا الوجه وروي في غیر هذا الحدیث أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل مکة في عمرة القضاء وکعب بن مالك بین یدیه و هذا أصح عند بعض أهل الحدیث لأن عبد الله بن رواحة قتل یوم موتة وإنما کانت عمرة القضاء بعد ذلك۔‘‘ یہ حدیث اس سند کے ساتھ حسن صحیح غریب ہے جبکہ دوسری روایت میں آتا ہے عمرۂ قضاء کے موقع پر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اشعار پڑھ رہے تھے اور یہ حدیث بعض محدثین کے نزدیک زیادہ صحیح ہے کیونکہ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ جنگِ موتہ میں شہید ہوگئے تھے جبکہ عمرۂ قضاء جنگِ موتہ کے بعد ہوا ہے۔‘‘ حالانکہ صحیح بخاری(صحیح بخاري، کتاب الصلح، باب کیف یکتب هذا ما صالح فلان، حدیث:۲۶۹۹۔) کی ایک حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عمرۂ قضاء پہلے ہوا ہے اور جنگِ موتہ بعد میں وقوع پذیر ہوئی وہ ایسے کہ عمرۂ قضاء میں سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا جعفر بن ابی طالب اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کے مابین سید الشہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کی کفالت کے بارے میں اختلاف ہوا تھا جس سے ظاہر ہے کہ عمرۂ قضاء میں سیدنا جعفر اور سیدنا زید رضی اللہ عنہمادونوں موجود تھے حالانکہ یہ دونوں ہی سیدنا عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگِ موتہ میں شہید ہوگئے تھے۔ لہٰذا صحیح یہی ہے کہ عمرۂ قضاء ۷ھ میں اور جنگ موتہ ۸ھ میں ہوئی ہے۔ واللہ اعلم! کفار کو اذیت دینے والے شعر کہنا درست ہے: ٭ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسا کام اور اقدام جس سے کفار کو اذیت پہنچے، جائز ہے مگر یاد رہے کہ یہ جنگ کے موقع پر ہے جب امان ہو تو ان کو برا کہنے اور ان سے چھیڑ چھاڑ کی ممانعت ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: ﴿ وَلَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوْا اللّٰهَ بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾(الانعام:۱۰۸) کہ ’’مشرکوں کے معبودوں کو گالیاں نہ دو، ورنہ وہ بے علمی میں تمہارے معبود کو گالیاں دیں گے۔‘‘ ٭ حرمِ پاک میں ایسے اشعار پڑھے جاسکتے ہیں جن میں اسلام کی عظمت و رفعت اور غیر مسلموں کی اہانت و تحقیر کا بیان ہو۔ ٭ عباداتِ نافلہ شروع کرنے کے بعد اگر درمیان میں ہی توڑ دی جائیں تو واجب القضاء ہوجاتی ہیں، جیسا کہ حدیث الباب میں عمرۃ القضاء کا ذکر ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے چھٹے سال نفلی عمرہ شروع کیا مگر کفار کی رکاوٹ اور پھر صلح حدیبیہ کے پیش نظر اسے توڑ دیا اور اگلے سال اس کی قضاء سر انجام دی۔