شمائل ترمذی - حدیث 241

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشِّعْرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا عُمَارَةَ؟ فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا وَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ وَلَّى سَرَعَانُ النَّاسِ تَلَقَّتْهُمْ هَوَازِنُ بِالنَّبْلِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ آخِذٌ بِلِجَامِهَا، وَرَسُولُ اللَّهِ يَقُولُ: ((أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 241

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشعار کہنے کاانداز ’’سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے دریافت کیا، اے ابو عمارہ! کیا تم لوگ (حنین کے دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو پیچھے نہیں ہٹے، بلکہ بعض جلد باز لوگوں نے قبیلہ ہوازن کی تیر اندازی کی وجہ سے منہ پھیر لیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے جس کی لگام ابوسفیان بن الحارث بن عبد المطلب نے پکڑ رکھی تھی۔ اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (بآواز بلند) یہ ارشاد فرما رہے تھے: ’’میں اللہ کا نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘
تشریح : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت: اس حدیث میں غزوۂ حنین ۸ھ کے موقع پر پیش آنے والے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں مسلمان سخت آزمائش میں مبتلا کیے گئے تھے اور جو جلد باز مجاہدین دشمن کی صفوں میں بہت آگے تک نکل چکے تھے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ اس بارے میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ پورے وثوق سے فرماتے ہیں : لَا وَاللّٰہِ یعنی ہم سب پیچھے نہیں ہٹے تھے، بلکہ ہم سے کچھ لوگ بھاگے اور باقی ڈٹے رہے۔ پھر تاکید سے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ڈتے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جماعت کا ڈٹے رہنا بھی لازمی امر تھا۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم فطرۃً اپنی جانیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جان پر قربان کرنے پر پیدا کیے گئے تھے۔ یہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا کمال ادب ہے۔ یعنی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرار نہیں ہوئے بلکہ بعض صحابہ دوبارہ واپسی کی نیت سے پیچھے ہٹے تھے تاکہ دوبارہ حملہ کیا جائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو کبھی بھی کسی بھی موقع پر پیچھے نہیں ہٹے۔ اس موقع پر بھی افراتفری کے عالم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کرام رضی الله عنہم کی معیت میں دشمنوں کی طرف بڑھے اور زبان مبارک سے یہ کلمہ حق ادا فرمایا: ’’أَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ‘‘ ’’میں بلاشبہ اللہ کا نبی ہوں اور عبد المطلب (جو اپنی قوم کا سردار تھا) کا بیٹا ہوں۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ دشمنوں کے نرغے میں آنے کے باوجود اپنے مشن کی تبلیغ کے لیے آگے بڑھتا رہوں گا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے دلیر، جری، شجاع اور بہادر تھے، دشمن کا خوف اور موت کا ڈر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بھی نہیں ٹپکتا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت قدمی نے میدان کا پانسہ پلٹ دیا اور باذن اللہ شکست فتح میں بدل گئی۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آدمی اپنے بڑوں کی طرف نسبت کرسکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دادا کی طرف نسبت کی۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کے پوتے ہیں۔ اس کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبد اللہ کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب زیادہ مشہور و معروف آدمی تھے اور سردارانِ مکہ میں سے تھے۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب قول الله تعالی ﴿وَیَوْمَ حُنَیْنٍ....الآیة﴾(۷؍۴۳۱۵)، صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب غزوة حنین (۳؍۷۸، ۸؍۱۴۰۰۔۱۴۰۱)، سنن ترمذي، أبواب الجهاد (۴؍۱۶۸۷)، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۲۸۹)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت: اس حدیث میں غزوۂ حنین ۸ھ کے موقع پر پیش آنے والے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں مسلمان سخت آزمائش میں مبتلا کیے گئے تھے اور جو جلد باز مجاہدین دشمن کی صفوں میں بہت آگے تک نکل چکے تھے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ اس بارے میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ پورے وثوق سے فرماتے ہیں : لَا وَاللّٰہِ یعنی ہم سب پیچھے نہیں ہٹے تھے، بلکہ ہم سے کچھ لوگ بھاگے اور باقی ڈٹے رہے۔ پھر تاکید سے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ڈتے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جماعت کا ڈٹے رہنا بھی لازمی امر تھا۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم فطرۃً اپنی جانیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جان پر قربان کرنے پر پیدا کیے گئے تھے۔ یہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا کمال ادب ہے۔ یعنی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرار نہیں ہوئے بلکہ بعض صحابہ دوبارہ واپسی کی نیت سے پیچھے ہٹے تھے تاکہ دوبارہ حملہ کیا جائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو کبھی بھی کسی بھی موقع پر پیچھے نہیں ہٹے۔ اس موقع پر بھی افراتفری کے عالم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کرام رضی الله عنہم کی معیت میں دشمنوں کی طرف بڑھے اور زبان مبارک سے یہ کلمہ حق ادا فرمایا: ’’أَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ‘‘ ’’میں بلاشبہ اللہ کا نبی ہوں اور عبد المطلب (جو اپنی قوم کا سردار تھا) کا بیٹا ہوں۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ دشمنوں کے نرغے میں آنے کے باوجود اپنے مشن کی تبلیغ کے لیے آگے بڑھتا رہوں گا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے دلیر، جری، شجاع اور بہادر تھے، دشمن کا خوف اور موت کا ڈر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بھی نہیں ٹپکتا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت قدمی نے میدان کا پانسہ پلٹ دیا اور باذن اللہ شکست فتح میں بدل گئی۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آدمی اپنے بڑوں کی طرف نسبت کرسکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دادا کی طرف نسبت کی۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کے پوتے ہیں۔ اس کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبد اللہ کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب زیادہ مشہور و معروف آدمی تھے اور سردارانِ مکہ میں سے تھے۔