شمائل ترمذی - حدیث 24

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي شَعْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: ((كَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى نِصْفِ أُذُنَيْهِ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 24

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں کا بیان ’’ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں کے نصف تک تھے۔ ‘‘
تشریح : احادیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں بارے مختلف الفاظ مروی ہیں۔ حدیث الباب میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کانوں کے نصف تک تھے۔ صحیح مسلم شریف میں الفاظ أَنْصَافِ أُذُنٍ ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في صفة شعر النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۹۶؍۲۳۳۸۔)کے ہیں، جن کے معنی بھی یہی ہیں کہ کانوں کے نصف تک بال تھے۔ ایک روایت میں ((عَظِیْمُ الجمة إِلیٰ شَحْمَةِ أُذُنَیْهِ)) (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي صلى الله علیه وسلم ...، حدیث:۹۱؍۲۳۳۷۔)کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال عظیم الجمہ اور کانوں کی لو تک تھے۔ ایک روایت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((مَا رَأَیْتُ مِنْ ذِیْ لِمَّةٍ أَحْسَنَ مِنْهُ۔)) (صحیح مسلم، حدیث:۹۲؍۲۳۳۷ عن البراء رضي الله عنه ۔)’’ کہ میں نے کوئی لمبے بالوں والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔ ‘‘ ایک روایت میں ہے کہ: ((کَانَ یَضْرِبُ شَعْرُهُ مَنْکِبَیْهِ۔))(صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب الجعد، حدیث:۵۹۰۳۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في صفة شعر النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۹۵؍۲۳۳۸۔)’’ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کندھوں تک آتے تھے۔‘‘ ایک راویت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ((بَیْنَ أُذُنَیْهِ وَعَاتِقِهِ)) (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب الجعد، حدیث:۵۹۰۵۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في صفة شعر النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۹۴؍۲۳۳۸۔)’’ یعنی کانوں اور کندھے کے درمیان تھے۔ ‘‘ اہل لغت نے سر کے بالوں کی تین قسمیں بیان کیں ہیں : لِمَّة: وہ بال ہو تے ہیں جو کندھوں کے قریب آئے ہو ئے ہوں۔ جُمَّة: وہ بال جو کندھوں تک پہنچے ہوئے ہوں وَفْرَة: وہ بال جو کانوں کی لو تک پہنچ چکے ہوں، اہل لغت میں سے بعض نے وفرۃ کو لمّہ اور لمّہ کو جُمّہ کے ذیل میں اور بعض دوسرے علماء نے اس سے برعکس ذکر کیا ہے۔ بقول قاضی عیاضی رحمہ اللہ ان روایات میں توفیق و تطبیق یوں ہوگی کہ یہ تمام صورتیں ایک دوسری کے قریب ہیں، ان میں بالکل معمولی فرق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالوں کو کٹواتے، تو کا نوں کے نصف تک پہنچ جاتے جو کہ وفرہ کہلاتے ہیں، پھر جب کچھ دن انہیں چھوڑتے تو وہ بڑھ کر کندھوں کے قریب ہو جاتے جو کہ لِمّہ کہلاتے ہیں، پھر اس کے بعد بڑھ کر جب وہ کندھوں تک پہنچتے تو جُمَّہ کہلاتے۔ لیکن اس سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بڑھنے نہ دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال اسی طرح بڑھتے اور کم ہو تے تھے، اور یہ روایات مختلف اوقات کے پیش نظر مختلف ہیں۔
تخریج : صحیح مسلم کتاب الفضائل (۴ ؍ ۹۶، حدیث نمبر: ۱۸۱۹)، سنن نسائي، کتاب الزینة (۸ ؍ ۵۲۴۹)، سنن أبي داود، کتاب الترجل (۴ ؍ ۴۱۸۶)، مسند احمد بن حنبل (۳؍۱۱۳)، شرح السنة للبغوي (۷ ؍ ۳۵۳۲)۔ احادیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں بارے مختلف الفاظ مروی ہیں۔ حدیث الباب میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کانوں کے نصف تک تھے۔ صحیح مسلم شریف میں الفاظ أَنْصَافِ أُذُنٍ ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في صفة شعر النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۹۶؍۲۳۳۸۔)کے ہیں، جن کے معنی بھی یہی ہیں کہ کانوں کے نصف تک بال تھے۔ ایک روایت میں ((عَظِیْمُ الجمة إِلیٰ شَحْمَةِ أُذُنَیْهِ)) (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي صلى الله علیه وسلم ...، حدیث:۹۱؍۲۳۳۷۔)کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال عظیم الجمہ اور کانوں کی لو تک تھے۔ ایک روایت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((مَا رَأَیْتُ مِنْ ذِیْ لِمَّةٍ أَحْسَنَ مِنْهُ۔)) (صحیح مسلم، حدیث:۹۲؍۲۳۳۷ عن البراء رضي الله عنه ۔)’’ کہ میں نے کوئی لمبے بالوں والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔ ‘‘ ایک روایت میں ہے کہ: ((کَانَ یَضْرِبُ شَعْرُهُ مَنْکِبَیْهِ۔))(صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب الجعد، حدیث:۵۹۰۳۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في صفة شعر النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۹۵؍۲۳۳۸۔)’’ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کندھوں تک آتے تھے۔‘‘ ایک راویت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ((بَیْنَ أُذُنَیْهِ وَعَاتِقِهِ)) (صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب الجعد، حدیث:۵۹۰۵۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في صفة شعر النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۹۴؍۲۳۳۸۔)’’ یعنی کانوں اور کندھے کے درمیان تھے۔ ‘‘ اہل لغت نے سر کے بالوں کی تین قسمیں بیان کیں ہیں : لِمَّة: وہ بال ہو تے ہیں جو کندھوں کے قریب آئے ہو ئے ہوں۔ جُمَّة: وہ بال جو کندھوں تک پہنچے ہوئے ہوں وَفْرَة: وہ بال جو کانوں کی لو تک پہنچ چکے ہوں، اہل لغت میں سے بعض نے وفرۃ کو لمّہ اور لمّہ کو جُمّہ کے ذیل میں اور بعض دوسرے علماء نے اس سے برعکس ذکر کیا ہے۔ بقول قاضی عیاضی رحمہ اللہ ان روایات میں توفیق و تطبیق یوں ہوگی کہ یہ تمام صورتیں ایک دوسری کے قریب ہیں، ان میں بالکل معمولی فرق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالوں کو کٹواتے، تو کا نوں کے نصف تک پہنچ جاتے جو کہ وفرہ کہلاتے ہیں، پھر جب کچھ دن انہیں چھوڑتے تو وہ بڑھ کر کندھوں کے قریب ہو جاتے جو کہ لِمّہ کہلاتے ہیں، پھر اس کے بعد بڑھ کر جب وہ کندھوں تک پہنچتے تو جُمَّہ کہلاتے۔ لیکن اس سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بڑھنے نہ دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال اسی طرح بڑھتے اور کم ہو تے تھے، اور یہ روایات مختلف اوقات کے پیش نظر مختلف ہیں۔