كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشِّعْرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ الْبَجَلِيِّ قَالَ: أَصَابَ حَجَرٌ أُصْبُعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَمِيَتْ، فَقَالَ: ((هَلْ أَنْتِ إِلَا أُصْبُعٌ دَمِيتِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشعار کہنے کاانداز
’’سیدنا جندب بن سفیان البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کو ایک پتھر لگا جس سے وہ زخمی ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِیْتِ وَفِي سَبِیْلِ اللّٰهِ مَا لَقِیْتِ‘‘
تو تو ایک انگلی ہی ہے جو خون آلود ہوگئی اور جو تکلیف تجھے پہنچی وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہی ہے۔‘‘
تشریح :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد چونکہ با ارادہ شعر نہیں تھا اس لیے یہ شعر نہیں ہوسکتا۔ نیز اہل فن کی اصطلاح میں بھی اس کلام پر شعر کا اطلاق درست نہیں۔ کیونکہ شعری اوزان اور عروض و بحور پر یہ کلام پورا نہیں اترتا۔ (والله اعلم بالصواب) اسی طرح بعض علماء نے یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ یہ کلام سیدنا عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا ہے، جیسا کہ ابن ابی الدنیا نے کہا ہے بعض نے کہا کہ یہ ولید بن المغیرہ کا شعر ہے۔ جیسا کہ واقدی نے لکھا ہے۔
امام ابن ابی الدنیا اپنی کتاب محاسبۃ النفس میں لکھتے ہی کہ یہ شعر عبد اللہ رواحہ رضی اللہ عنہ کا ہے انہوں نے غزوۂ موتہ میں اپنی انگلی زخمی ہونے پر رجزیہ انداز میں یہ کہا اور پھر میدانِ جنگ میں دیوانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان کے اشعار یہ ہیں :
هل أنت إلا أصبع دمیت وفی سبیل الله ما لقیت
یا نفس ألا تقتلی فتموتی هذا حیاض الموت قد صلیت
فما تمنیت فقد لقیت إن تفعلی فعلها هدیت
صحیح بخاری شریف میں اسود کے طریق سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کسی مقام پر زخمی ہوگئی تھی۔( صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب ما یجوز من الشعر والرجز، حدیث:۶۱۴۶۔) جبکہ علامہ کرمانی کہتے ہیں یہ غزوۂ احد کا واقعہ ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہوگئی۔( صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب ما لقي النبي صلى الله علیه وسلم من أذی المشرکین...، حدیث:۱۱۳؍۱۷۹۶۔)بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبلِ احد کی کسی غار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہوگئی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ ارشاد فرمایا۔
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب الأدب (۱۰؍۶۱۴۶)، صحیح مسلم، کتاب الجهاد (۳؍۱۱۲ برقم ۱۴۲۱)، سنن ترمذي، أبواب التفسیر (۵؍۳۳۴۵)، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۳۱۳)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد چونکہ با ارادہ شعر نہیں تھا اس لیے یہ شعر نہیں ہوسکتا۔ نیز اہل فن کی اصطلاح میں بھی اس کلام پر شعر کا اطلاق درست نہیں۔ کیونکہ شعری اوزان اور عروض و بحور پر یہ کلام پورا نہیں اترتا۔ (والله اعلم بالصواب) اسی طرح بعض علماء نے یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ یہ کلام سیدنا عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا ہے، جیسا کہ ابن ابی الدنیا نے کہا ہے بعض نے کہا کہ یہ ولید بن المغیرہ کا شعر ہے۔ جیسا کہ واقدی نے لکھا ہے۔
امام ابن ابی الدنیا اپنی کتاب محاسبۃ النفس میں لکھتے ہی کہ یہ شعر عبد اللہ رواحہ رضی اللہ عنہ کا ہے انہوں نے غزوۂ موتہ میں اپنی انگلی زخمی ہونے پر رجزیہ انداز میں یہ کہا اور پھر میدانِ جنگ میں دیوانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان کے اشعار یہ ہیں :
هل أنت إلا أصبع دمیت وفی سبیل الله ما لقیت
یا نفس ألا تقتلی فتموتی هذا حیاض الموت قد صلیت
فما تمنیت فقد لقیت إن تفعلی فعلها هدیت
صحیح بخاری شریف میں اسود کے طریق سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کسی مقام پر زخمی ہوگئی تھی۔( صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب ما یجوز من الشعر والرجز، حدیث:۶۱۴۶۔) جبکہ علامہ کرمانی کہتے ہیں یہ غزوۂ احد کا واقعہ ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہوگئی۔( صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب ما لقي النبي صلى الله علیه وسلم من أذی المشرکین...، حدیث:۱۱۳؍۱۷۹۶۔)بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبلِ احد کی کسی غار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہوگئی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ ارشاد فرمایا۔