كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ،حَدَّثَنَا الْمُبَارِكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : أَتَتْ عَجُوزٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُدْخِلَنِي الْجَنَّةَ، فَقَالَ: ((يَا أُمَّ فُلَانٍ، إِنَّ الْجَنَّةَ لَا تَدْخُلُهَا عَجُوزٌ)) قَالَ: فَوَلَّتْ تَبْكِي فَقَالَ: ((أَخْبِرُوهَا أَنَّهَا لَا تَدْخُلُهَا وَهِيَ عَجُوزٌ)) إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: ﴿إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا﴾ [الواقعة: 35- 37]
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح (خوش طبعی اور دل لگی) کاطریقہ
’’حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھی عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے فلان شخص کی والدہ! جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہوگی۔‘‘ (حسن بصری رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ وہ بڑھیا روتی ہوئی واپس چلی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے خبر کردو کہ کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں نہیں جائے گی (بلکہ نوجوان دو شیزہ بن کر جائے گی) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْکَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا﴾کہ ہم نے ان عورتوں کو اس خاص انداز پر پیدا کیا کہ وہ کنواریاں، دل پسند اور ہم عمر ہیں۔‘‘
تشریح :
معلوم ہوا کہ شرعی طور پر ایسا مزاح اور مذاق جائز ہے جس میں جھوٹ نہ ہو، جھوٹ پر مبنی یا حقیقت سے بعید مذاق جس سے کسی کو محض پریشان کرنا مقصود ہو وہ نہ شرعاً جائز ہے اور نہ اخلاقاً۔
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم مکمل ہوا۔
والحمد للّٰه علی ذالك
تخریج :
یہ روایت اپنے شواہد کے اعتبار سے حسن ہے۔ اس سند کے ساتھ یہ روایت مرسل ہے کیونکہ حسن بصری تابعی ہیں اور کسی صحابی کے واسطہ کے بغیر یہ روایت بیان کر رہے ہیں، اس سند میں مصعب بن مقدام راوی صدوق ہیں اور ان کو اکثر وہم ہوجاتا تھا، اسی طرح اس سند میں مبارک بن فضالہ مدلس راوی ہے اور روایت بھی عنعنہ کے طریق پر ہے لہٰذا یہ سند ضعیف ہے البتہ ابو الشیخ بن حبان نے ’’اخلاق النبی صلى الله عليه وسلم ‘‘ (ص:۸۸) میں حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے طریق سے اس کا ایک شاہد حدیث ’’إِنَّا حَامِلُوْكَ عَلَی وَلَدِ النَّاقةِ‘‘ کے ضمن میں ذکر کیا ہے اس کی سند صحیح ہے، اسی طرح اس کا ایک شاہد سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے امام طبرانی نے ’’معجم الاوسط‘‘ میں نقل ہے کہ ایک بوڑھی انصاریہ عورت نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کردے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی‘‘ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اس عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ سے بڑی تکلیف پہنچی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تو ایسے ہے کہ اللہ تعالیٰ جب ان کو جنت میں داخلہ دے گا تو ان کو کنواریوں میں بدل دے گا۔‘‘ (معجم الأوسط طبراني(۵۷۰۳)۔ مجمع الزوائد (۱۰؍۳۱۹)۔)امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں طبرانی کی سند میں مسعدۃ بن یسع راوی ضعیف ہے۔ اس کے ہم معنی دیگر شواہد بھی ہیں جن کی بنا پر محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ والله اعلم بالصواب۔
معلوم ہوا کہ شرعی طور پر ایسا مزاح اور مذاق جائز ہے جس میں جھوٹ نہ ہو، جھوٹ پر مبنی یا حقیقت سے بعید مذاق جس سے کسی کو محض پریشان کرنا مقصود ہو وہ نہ شرعاً جائز ہے اور نہ اخلاقاً۔
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم مکمل ہوا۔
والحمد للّٰه علی ذالك