شمائل ترمذی - حدیث 235

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ كَانَ اسْمُهُ زَاهِرًا وَكَانَ يُهْدِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً مِنَ الْبَادِيَةِ، فَيُجَهِّزُهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ زَاهِرًا بَادِيَتُنَا وَنَحْنُ حَاضِرُوهُ)) وَكَانَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّهُ وَكَانَ رَجُلًا دَمِيمًا فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ يَبِيعُ مَتَاعَهُ فَاحْتَضَنَهُ مِنْ خَلْفِهِ وَهُوَ لَا يُبْصِرُهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ أَرْسِلْنِي. فَالْتَفَتَ فَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ لَا يَأْلُو مَا أَلْصَقَ ظَهْرَهُ بِصَدْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عَرَفَهُ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الْعَبْدَ)) فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذًا وَاللَّهِ تَجِدُنِي كَاسِدًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَكِنْ عِنْدَ اللَّهِ لَسْتَ بِكَاسِدٍ)) أَوْ قَالَ: ((أَنتَ عِنْدَ اللَّهِ غَالٍ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 235

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح (خوش طبعی اور دل لگی) کاطریقہ ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص دیہات کا رہنے والا تھا جس کا نام زاھر تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو دیہات کا کوئی تحفہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتا، پھر جب وہ شخص جانے کا ارادہ کرتا تو رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کوئی تحفہ عنایت فرماتے۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زاھر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے محبت کرتے تھے، اور وہ آدمی قدرے بدصورت تھا۔ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس اس حالت میں آئے کہ وہ اپنا کچھ سامان فروخت کر رہا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے آکر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کو اپنے ساتھ لگالیا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ وہ کہنے لگا، یہ کون ہے؟ مجھے چھوڑو۔ جب اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا تو اپنی کمر کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کے ساتھ لگانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس غلام کا کون خریدار ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! مجھے تو آپ گھاٹے کا سودا پائیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لیکن تو اللہ تعالیٰ کے ہاں گھاٹے والا نہیں ہے۔‘‘ یا فرمایا: ’’تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا قیمتی ہے۔‘‘
تشریح : دیہاتی کے نصیب جاگ پڑے: حدیث بالا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی اخلاقِ کریمانہ کا اظہار ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو اپنے بازوؤں میں لینا بہت ہی پیار اور محبت بھرا مزاح تھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں کتنا نفیس مزاح ہے کہ اس غلام کو کون خریدتا ہے، اس کی عاجزی ملاحظہ ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میں زشت رو، قبیح صورت تو بہت کم قیمت ہوں گا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت ہی بیش قیمت ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت کا معیار خوبصورتی یا بدصورتی نہیں ہے بلکہ حسنِ سیرت و کردار قبولیت کا معیار ہے ’’إِنَّ اللّٰهَ لَا یَنْظُرُ إِلَی صُوَرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ یَنْظُرُ إِلَی أَعْمَالِکُمْ وَقُلُوْبِکُمْ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب تحریم ظلم المسلم، حدیث:۳۴؍۲۵۶۴۔ سنن ابن ماجة (۴۱۴۳)۔) کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے۔‘‘ ﴿إِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاکُمْ﴾’’یقیناً اللہ تعالیٰ کے ہاں تم میں سے سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ مسند أحمد بن حنبل (۳؍۱۶۱)، مصنف عبد الرزاق (۱۰؍۴۵۵ برقم ۱۹۶۸۸)، شرح السنة للبغوي (۶؍۳۴۹۸)، سنن البیهقي (۱۰؍۲۴۸) امام ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کو ’’مجمع الزوائد‘‘ (۳؍۳۶۹) میں ذکر کرکے فرماتے ہیں : ’’مسند احمد بن حنبل کی اس سند کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں۔ دیہاتی کے نصیب جاگ پڑے: حدیث بالا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی اخلاقِ کریمانہ کا اظہار ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو اپنے بازوؤں میں لینا بہت ہی پیار اور محبت بھرا مزاح تھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں کتنا نفیس مزاح ہے کہ اس غلام کو کون خریدتا ہے، اس کی عاجزی ملاحظہ ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میں زشت رو، قبیح صورت تو بہت کم قیمت ہوں گا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت ہی بیش قیمت ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت کا معیار خوبصورتی یا بدصورتی نہیں ہے بلکہ حسنِ سیرت و کردار قبولیت کا معیار ہے ’’إِنَّ اللّٰهَ لَا یَنْظُرُ إِلَی صُوَرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ یَنْظُرُ إِلَی أَعْمَالِکُمْ وَقُلُوْبِکُمْ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب تحریم ظلم المسلم، حدیث:۳۴؍۲۵۶۴۔ سنن ابن ماجة (۴۱۴۳)۔) کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے۔‘‘ ﴿إِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاکُمْ﴾’’یقیناً اللہ تعالیٰ کے ہاں تم میں سے سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘