كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا اسْتَحْمَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((إِنِّي حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ)) فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ؟ فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَهَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَا النُّوقُ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح (خوش طبعی اور دل لگی) کاطریقہ
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا۔‘‘ وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سواری کے قابل) اونٹ کو بھی تو اونٹنی ہی جنم دیتی ہے۔‘‘
تشریح :
اس روایت سے معلوم ہوا کہ بغیر تحقیق اور غور و فکر کے کسی بات کو رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اچھی طرح تحقیق کرنے کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے۔ نیز اس میں ایک لطیف قسم کا مزاح بھی ہے۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب البر والصلة (۴؍۱۹۹۱)، سنن أبي داود، کتاب الأدب باب ما جاء في المزاح (۴؍۴۹۹۸)، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۳۶۷)، أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص:۸۸)، الأدب المفرد للبخاري (برقم:۲۶۸)، مسند أبي یعلی الموصلي (۴؍۳۷۶۴)۔ السنن الکبری للبیهقي (۱۰؍۲۴۸)، شرح السنة (۱۳؍۱۸۲)۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ بغیر تحقیق اور غور و فکر کے کسی بات کو رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اچھی طرح تحقیق کرنے کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے۔ نیز اس میں ایک لطیف قسم کا مزاح بھی ہے۔