شمائل ترمذی - حدیث 233

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ: أَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: أَنبأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارِكِ، عَنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا قَالَ: ((إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَا حَقًّا)) تَدَاعِبُنَا یَعْنِي تُمَازِحُنَا

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 233

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح (خوش طبعی اور دل لگی) کاطریقہ ’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بعض صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ مزاح بھی فرما لیتے ہیں ؟ فرمایا: ’’(ہاں ) مگر میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں آمدہ لفظ تُدَاعِبُنَا کا معنی تُمَازِحُنَا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے مزاح کرتے ہیں۔‘‘
تشریح : معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے مزاح اور خوش طبعی میں بھی حق اور صحیح قول ہی نکلتا تھا تو جو شخص اس قسم کا مزاح کرسکے اس کے لیے مزاح کرنا درست اور جائز ہے مگر جھوٹا تمسخر اور تکلیف دینے والا استہزاء یا دل کو مردہ کردینے والی ہنسی قطعی طور پر درست نہیں، بلکہ ناجائز ہے۔
تخریج : یہ روایت حسن ہے۔ سنن ترمذي، أبواب البر والصلة (۴؍۱۹۹۰)، مسند أحمد بن حنبل (۲؍۳۶۰)، الأدب المفرد للبخاري (۲۶۵)۔ اس حدیث کی سند میں اسامہ بن زید اللیثی صدوق راوی ہیں - امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’الادب المفرد‘‘ میں یہ روایت ایک دوسری سند سے نقل کی ہے جس میں عبد اللہ بن صالح کاتب اللیث ضعیف ہے۔ دونوں سندوں کی تحقیق کے بعد اس روایت کا درجہ حسن لذاتہ ہے۔ واللہ اعلم۔ معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے مزاح اور خوش طبعی میں بھی حق اور صحیح قول ہی نکلتا تھا تو جو شخص اس قسم کا مزاح کرسکے اس کے لیے مزاح کرنا درست اور جائز ہے مگر جھوٹا تمسخر اور تکلیف دینے والا استہزاء یا دل کو مردہ کردینے والی ہنسی قطعی طور پر درست نہیں، بلکہ ناجائز ہے۔