شمائل ترمذی - حدیث 232

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُخَالِطُنَا حَتَّى يَقُولَ لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ: ((يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟)) قَالَ أَبُو عِيسَى: " وَفِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُمَازِحُ وَفِيهِ أَنَّهُ كَنَّى غُلَامًا صَغِيرًا فَقَالَ لَهُ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ. وَفِيهِ أَنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يُعْطَى الصَّبِيُّ الطَّيْرَ لِيَلْعَبَ بِهِ. وَإِنَّمَا قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟)) لِأَنَّهُ كَانَ لَهُ نُغَيْرٌ يَلْعَبُ بِهِ فَمَاتَ، فَحَزِنَ الْغُلَامُ عَلَيْهِ فَمَازَحَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 232

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح (خوش طبعی اور دل لگی) کاطریقہ ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اتنے مل جل جاتے تھے کہ ایک مرتبہ میرے چھوٹے بھائی کو کہا: اے عمیر کے باپ ! تمہارا نغیر کیسا ہے؟امام ابوعیسیٰ (ترمذی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزاح بھی فرمالیا کرتے تھے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کی کنیت ابوعمیر رکھی، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس میں کوئی امر مانع نہیں کہ بچے کو پرندہ دیا جائے کہ وہ اس سے کھیلے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: یَا أَبَا عُمَیْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ اس سے مراد یہ ہے کہ اس بچے کے پاس ایک نغیر تھی جس سے وہ کھیلتا تھا وہ نغیرمر گئی تو اس بچے کو افسوس ہوا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دل لگی اور خوش طبعی کرتے ہوئے فرمایا: یَا أَبَا عُمَیْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ۔‘‘
تشریح : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل لگی اور خوش طبعی : صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ خوش خلق تھے میرا ایک چھوٹا بھائی ابوعمیر تھا اس کی ایک چھوٹی سے چڑیا تھی جسے نغیر (بلبل) کہا جاتا تھا، اس سے وہ کھیلتا تھا ایک دن وہ چھوٹی سی بلبل مر گئی، جس پر میرا بھائی بڑا رنجیدہ ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں گئے تو فرمانے لگے : عمیر کے باپ ! نغیر کا کیا ہوا ؟ ( صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب الکنیة للصبي، حدیث:۶۲۰۳۔ صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب جواز تکنیة من لم یولد له، حدیث:۲۱۵۰۔) دیگر مستنبط مسائل : ٭ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچے کو کھیلنے کے لیے پرندہ دیا جاسکتا ہے جبکہ معلوم ہو کہ وہ اس کو تکلیف نہیں دے گا۔ ٭ مزاح کرنا جائز ہے، سنت یا مستحب نہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا، پھر عملا ً خود کیا، تو اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ جواز کی حد تک جائز ہے، سنت یا مستحب نہیں ہے۔ جس طرح کھڑے ہو کر پانی پینا ممنوع ہے مگر جائز ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ہیبت و وقار ودیعت فرما رکھی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح اس پر اثر انداز نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کوئی آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوتا تو اس پر کپکپی طاری ہوجاتی جیسا کہ صحیح روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کھڑا ہوا تو کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ’’تسلی رکھو! میں بادشاہ نہیں ہوں، اور جبار و سرکش بھی نہیں ہوں، میں ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کے کٹے ہوئے ٹکڑے کھالیتی تھی‘‘ تب اس شخص نے اپنی ضرورت و حاجت کی بات بیان کی۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: ’’لوگو! مجھے بذریعہ وحی حکم ملا ہے کہ تمہیں حکم دوں کہ تم تواضع اختیار کرو، اور کوئی شخص کسی دوسرے پر بغاوت نہ کرے، اور کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘( سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة، باب القدید، حدیث:۳۳۱۲۔ مستدرك حاکم (۳؍۴۷)۔) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت و وقار: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت و وقار کے بارے میں سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیاء و تعظیم کرتے ہوئے کبھی نظر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہیں سکا۔ اگر کوئی مجھے کہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کرو تو میں یہ نہیں کرسکتا۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب کون الإسلام یهدم ما قبله، حدیث:۱۲۱ مطولاً۔) اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ کرام رضی الله عنہم سے کشادہ روئی، انسیت و تالیف اور کرم و ملاطفت نہ ہوتی تو کوئی شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈر اور ہیبت و وقار کی وجہ سے کلام نہ کرسکتا، اور نہ ہی نظر بھر کر دیکھ سکتا۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب الکنیة للصبی قبل أن یولد (۱۰؍۶۱۲۹)، صحیح مسلم، کتاب الأدب، باب جواز تکنیة من لم یولد (۴؍۳۰ برقم ۱۶۹۲،۱۶۹۳)، سنن أبی داود، کتاب الأدب (۴؍۴۹۶۹)، سنن ترمذي، أبواب الصلوة (۲؍۳۳۳) أبواب البروالصلة (۴؍۱۹۸۹)سنن ابن ماجة، کتاب الأدب (۲؍۳۷۲۰)، مسند أحمد بن حنبل (۳؍ ۱۱۵، ۱۱۹، ۱۷۱، ۱۸۸، ۱۹۰، ۲۰۱، ۲۱۲، ۲۲۲)، السنن الکبرٰی للبیهقي (۱۰؍۲۴۸)، عمل الیوم واللیلة للنسائي(ص : ۲۸۶،۲۸۷)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل لگی اور خوش طبعی : صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ خوش خلق تھے میرا ایک چھوٹا بھائی ابوعمیر تھا اس کی ایک چھوٹی سے چڑیا تھی جسے نغیر (بلبل) کہا جاتا تھا، اس سے وہ کھیلتا تھا ایک دن وہ چھوٹی سی بلبل مر گئی، جس پر میرا بھائی بڑا رنجیدہ ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں گئے تو فرمانے لگے : عمیر کے باپ ! نغیر کا کیا ہوا ؟ ( صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب الکنیة للصبي، حدیث:۶۲۰۳۔ صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب جواز تکنیة من لم یولد له، حدیث:۲۱۵۰۔) دیگر مستنبط مسائل : ٭ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچے کو کھیلنے کے لیے پرندہ دیا جاسکتا ہے جبکہ معلوم ہو کہ وہ اس کو تکلیف نہیں دے گا۔ ٭ مزاح کرنا جائز ہے، سنت یا مستحب نہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا، پھر عملا ً خود کیا، تو اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ جواز کی حد تک جائز ہے، سنت یا مستحب نہیں ہے۔ جس طرح کھڑے ہو کر پانی پینا ممنوع ہے مگر جائز ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ہیبت و وقار ودیعت فرما رکھی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح اس پر اثر انداز نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کوئی آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوتا تو اس پر کپکپی طاری ہوجاتی جیسا کہ صحیح روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کھڑا ہوا تو کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ’’تسلی رکھو! میں بادشاہ نہیں ہوں، اور جبار و سرکش بھی نہیں ہوں، میں ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کے کٹے ہوئے ٹکڑے کھالیتی تھی‘‘ تب اس شخص نے اپنی ضرورت و حاجت کی بات بیان کی۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: ’’لوگو! مجھے بذریعہ وحی حکم ملا ہے کہ تمہیں حکم دوں کہ تم تواضع اختیار کرو، اور کوئی شخص کسی دوسرے پر بغاوت نہ کرے، اور کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘( سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة، باب القدید، حدیث:۳۳۱۲۔ مستدرك حاکم (۳؍۴۷)۔) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت و وقار: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت و وقار کے بارے میں سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیاء و تعظیم کرتے ہوئے کبھی نظر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہیں سکا۔ اگر کوئی مجھے کہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کرو تو میں یہ نہیں کرسکتا۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب کون الإسلام یهدم ما قبله، حدیث:۱۲۱ مطولاً۔) اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ کرام رضی الله عنہم سے کشادہ روئی، انسیت و تالیف اور کرم و ملاطفت نہ ہوتی تو کوئی شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈر اور ہیبت و وقار کی وجہ سے کلام نہ کرسکتا، اور نہ ہی نظر بھر کر دیکھ سکتا۔