شمائل ترمذی - حدیث 230

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ سَعْدٌ: لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ. قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ كَانَ؟ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مَعَهُ تُرْسٌ، وَكَانَ سَعْدٌ رَامِيًا، وَكَانَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا بِالتُّرْسِ يُغَطِّي جَبْهَتَهُ، فَنَزَعَ لَهُ سَعْدٌ بِسَهْمٍ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ رَمَاهُ فَلَمْ يُخْطِئْ هَذِهِ مِنْهُ - يَعْنِي جَبْهَتَهُ - وَانْقَلَبَ الرَّجُلُ، وَشَالَ بِرِجْلِهِ: ((فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ)) . قَالَ: قُلْتُ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكَ؟ قَالَ: مِنْ فِعْلِهِ بِالرَّجُلِ

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 230

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کابیان ’’عامر بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کے دن اتنا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھیں ظاہر ہو گئیں (عامر بن سعد کہتے ہیں )میں نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اتنا) کیوں ہنسے تھے ؟ انہوں نے فرمایا: ایک (کافر )آدمی کے پاس ڈھال تھی اور سعد اگرچہ بڑے تیرانداز تھے مگر وہ کافر اپنی ڈھال کواِدھر اُدھر کرکے اپنا چہرہ بچارہا تھا، پس سعد نے اپنی ترکش سے تیر نکالا، تو جو نہی اس کافر نے اپنا سراٹھایا تو سعد نے تیر فورا ً چھوڑ دیا اور اب کہ یہ تیر خطانہ ہوا اور سید ھا اس کی پیشانی پر لگا، اور وہ گر گیا اور اس کی ٹانگ اوپر اٹھ گئی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک نظر آنے لگے۔ عامر کہتے ہیں میں نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس وجہ سے ہنسے ؟ انہوں نے بتایا کہ سعد کے اس کام سے جو انہوں نے اس کافر سے کیا۔ ‘‘
تخریج : یہ حدیث ضعیف ہے۔ مسند أحمد بن حنبل (۱؍۱۸۶)، امام ھیثمی رحمہ اللہ اسے مجمع الذوائد میں ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس روایت کو امام احمد اور امام بزار نے روایت کیا ہے اور ان دونوں کے راوی محمد بن محمد بن الاسود کے علاوہ صحیح کے راوۃہیں جبکہ وہ ثقہ ہے۔ شیخ احمد شاکر فرماتے ہیں اس روایت کی سند صحیح ہے۔ محمد بن محمد بن الاسود کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے تقریب التہذیب میں مستور کہا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی التاریخ الکبیر (۱؍۱،۲۲۶)ذکر کیا ہے لیکن ان کے بارے میں کوئی جرح اور تعدیل ذکر نہیں کی، اسی طرح امام ابن ابی حاتم نے بھی الجرح والتعدیل میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور سکوت اختیار کیا ہے علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی سند ضعیف ہے اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے محمد بن محمد بن اسود کے، اس سے صرف عبداللہ بن عون الثقہ اور ھشام بن زیاد نے روایت کی ہے اور ھشام بن زیاد متروک ہے۔ چنانچہ اس کا شمار مجہولین میں ہو تا ہے خصوصا ً جبکہ اسے کسی محدث نے ثقہ نہیں کہا حتی کہ ابن حبان نے بھی ثقہ نہیں کہا (مختصر الشمائل المحمدیة ص : ۱۲۴)۔