شمائل ترمذی - حدیث 23

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَاتَمِ النُّبُوَّةِ حَدَّثَنَا أَبًوْ الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ أَبُو الْأَشْعَثِ الْعِجْلِيُّ الْبَصْرِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَدُرْتُ هَكَذَا مِنْ خَلْفِهِ، فَعَرَفَ الَّذِي أُرِيدُ، فَأَلْقَى الرِّدَاءَ عَنْ ظَهْرِهِ، فَرَأَيْتُ مَوْضِعَ الْخَاتَمِ عَلَى كَتِفَيْهِ مِثْلَ الْجُمْعِ حَوْلَهَا خِيلَانٌ كَأَنَّهَا ثَآلِيلُ، فَرَجَعْتُ حَتَّى اسْتَقْبَلْتُهُ، فَقُلْتُ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: ((وَلَكَ)) فَقَالَ الْقَوْمُ: أَسْتَغْفَرَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَلَكُمْ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾ [محمد: 19]

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 23

کتاب مہرِ نبوت کابیان ’’ سیدنا عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چکر لگایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ارادے کو بھانپ لیا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمر سے چادر ہٹادی تو میں نے مہرِ نبوت کی جگہ دیکھی، جو مٹھی کی مانند تھی، جس پر تلوں کے نشان اس طرح تھے جس طرح ابھرے ہوئے مَسّے یا پستانوں کے سرے ہوتے ہیں۔ (یہ دیکھنے کے بعد) میں واپس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تجھے بھی معاف فرمائے۔‘‘ لوگوں نے کہا: تیرے لیے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخشش کی دعا کی ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں ! تمھارے لیے بھی۔ پھر یہ آیت تلاوت کی: ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾(محمد:۱۹) ’’ اے نبی! تو اپنے، اور ایماندار مردوں، اور عورتوں کے گناہوں کی بخشش طلب کر۔ ‘‘
تشریح : مہرِ نبوت کے بارے میں ایک تنبیہ: یہاں دوسرا باب مکمل ہو رہا ہے، جو مہرِ نبوت کے بارے میں تھا۔ باب کی تمام روایات سے واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے مبارک کے قریب مہرِ نبوت تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی علامت ہے۔ مہرِ نبوت ایک ایسی نشانی ہے جو ماقبل انبیاء علیہم السلام میں سے کسی میں بھی نہ تھی، گویا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف خاص تھا۔ لیکن بعض مقلدین نے یہ وصف اپنے امام میں بھی ثابت کرنے کی جسارت کی ہے، چنانچہ مولانا ابوانس محمد یحییٰ گوندلوی رحمہ اللہ خصائل محمدی، صفحہ ۵۹ میں لکھتے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانۂ مبارک کے قریب مہرِ نبوت تھی، جو آپ کے نبی(علیہ السلام) ہو نے کی علامت ہے، مہرِ نبوت ایک ایسی نشانی ہے جو ماقبل انبیاء علیہم السلام میں سے کسی میں بھی نہ تھی، گویا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ مبارک تھا، لیکن بعض متعصّب احناف نے یہ وصف امام ابوحنیفہ میں بھی ثابت کرنے کی ناحق جسارت اور جرات کی ہے کہ امام صاحب نے خواب میں دیکھا کہ میں قبر نبوی کھود کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیوں کو اپنے سینے سے لگا رہا ہوں۔ اس خواب سے امام صاحب بڑے خائف ہوئے، اور بصریٰ میں پہنچ کر محمد بن سیرین سے اپنا یہ خواب بیان کیا۔ (امام محمد بن سیرین اس وقت بہت بڑے معبر تھے)، انہوں نے فرمایا: یہ خواب تو وہی شخص دیکھ سکتا ہے جس کا نام ابوحنیفہ ہے۔ امام صاحب فرمانے لگے: ا بوحنیفہ میں ہی ہوں۔ امام محمد بن سیرین نے امام صاحب کی پشت دیکھی جس میں مسہ (مہرِ نبوت کی طرح ) تھا، انہوں نے فرمایا: ہاں تم ہی ابوحنیفہ ہو، جن کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ’’ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سنت کو زندہ کرے گا۔‘‘ (جامع المسانید، جلد: ۱، صفحہ: ۱۸) مولانا گوندلوی مزید لکھتے ہیں کہ: ’’ کس قدر جسارت ہے کہ جو وصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا جس میں کوئی دوسرا نبی بھی شریک نہیں، اسے امام ابوحنیفہ میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اعاذنا الله من ذلك۔ دراصل یہ تقلید کی کارفرمائی ہے کہ مقلدین حضرات غلو سے کام لیتے ہوئے بسا اوقات شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے ائمہ کو منصبِ نبوت کے مقام پر پہنچا دیتے ہیں۔ جب تقلید ہی بذاتِ خود باطل ہے تو اس سے اچھے نتائج کیسے حاصل ہوسکتے ہیں۔‘‘
تخریج : صحیح مسلم (کتاب الفضائل (۴ ؍ ۱۱۲)، برقم (۱۸۲۳، ۱۸۲۴)۔ مسند أحمد (۵ ؍ ۸۳، ۸۲)، طبقات (۱ ؍ ۴۲۶)، مسند حمیدي (۸۶۷)، عمل الیوم واللیلة للنسائي (برقم:۲۹۵، ۴۲۱، ۴۲۲) شرح السنة (۷؍۳۵۲۸) مہرِ نبوت کے بارے میں ایک تنبیہ: یہاں دوسرا باب مکمل ہو رہا ہے، جو مہرِ نبوت کے بارے میں تھا۔ باب کی تمام روایات سے واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے مبارک کے قریب مہرِ نبوت تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی علامت ہے۔ مہرِ نبوت ایک ایسی نشانی ہے جو ماقبل انبیاء علیہم السلام میں سے کسی میں بھی نہ تھی، گویا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف خاص تھا۔ لیکن بعض مقلدین نے یہ وصف اپنے امام میں بھی ثابت کرنے کی جسارت کی ہے، چنانچہ مولانا ابوانس محمد یحییٰ گوندلوی رحمہ اللہ خصائل محمدی، صفحہ ۵۹ میں لکھتے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانۂ مبارک کے قریب مہرِ نبوت تھی، جو آپ کے نبی(علیہ السلام) ہو نے کی علامت ہے، مہرِ نبوت ایک ایسی نشانی ہے جو ماقبل انبیاء علیہم السلام میں سے کسی میں بھی نہ تھی، گویا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ مبارک تھا، لیکن بعض متعصّب احناف نے یہ وصف امام ابوحنیفہ میں بھی ثابت کرنے کی ناحق جسارت اور جرات کی ہے کہ امام صاحب نے خواب میں دیکھا کہ میں قبر نبوی کھود کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیوں کو اپنے سینے سے لگا رہا ہوں۔ اس خواب سے امام صاحب بڑے خائف ہوئے، اور بصریٰ میں پہنچ کر محمد بن سیرین سے اپنا یہ خواب بیان کیا۔ (امام محمد بن سیرین اس وقت بہت بڑے معبر تھے)، انہوں نے فرمایا: یہ خواب تو وہی شخص دیکھ سکتا ہے جس کا نام ابوحنیفہ ہے۔ امام صاحب فرمانے لگے: ا بوحنیفہ میں ہی ہوں۔ امام محمد بن سیرین نے امام صاحب کی پشت دیکھی جس میں مسہ (مہرِ نبوت کی طرح ) تھا، انہوں نے فرمایا: ہاں تم ہی ابوحنیفہ ہو، جن کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ’’ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سنت کو زندہ کرے گا۔‘‘ (جامع المسانید، جلد: ۱، صفحہ: ۱۸) مولانا گوندلوی مزید لکھتے ہیں کہ: ’’ کس قدر جسارت ہے کہ جو وصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا جس میں کوئی دوسرا نبی بھی شریک نہیں، اسے امام ابوحنیفہ میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اعاذنا الله من ذلك۔ دراصل یہ تقلید کی کارفرمائی ہے کہ مقلدین حضرات غلو سے کام لیتے ہوئے بسا اوقات شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے ائمہ کو منصبِ نبوت کے مقام پر پہنچا دیتے ہیں۔ جب تقلید ہی بذاتِ خود باطل ہے تو اس سے اچھے نتائج کیسے حاصل ہوسکتے ہیں۔‘‘