شمائل ترمذی - حدیث 228

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْرفُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا، رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنْهَا زَحْفًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْطَلِقْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ " قَالَ: " فَيَذْهَبُ لِيَدْخُلَ الْجَنَّةَ، فَيَجِدُ النَّاسَ قَدْ أَخَذُوا الْمَنَازِلَ، فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، قَدْ أَخَذَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، فَيُقَالُ لَهُ: أَتَذْكُرُ الزَّمَانَ الَّذِي كُنْتَ فِيهِ، فَيَقُولُ: نَعَمْ " قَالَ: " فَيُقَالُ لَهُ: تَمَنَّ " قَالَ: " فَيَتَمَنَّى، فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ الَّذِي تَمَنَّيْتَ وَعَشَرَةَ أَضْعَافِ الدُّنْيَا " قَالَ: " فَيَقُولُ: تَسْخَرُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ " قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 228

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کابیان ’’سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا، وہ ایسا آدمی ہو گا جو سرینوں کے بل گھسیٹتا ہوا دوزخ سے نکلے گا، اس کو حکم ہو گا کہ جاؤ جنت میں چلے جاؤ۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص جنت میں داخل ہو نے کے لیے جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ جنت میں سب لوگوں نے اپنے اپنے ٹھکانوں پر رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔ وہ شخص لوٹ کر آئے گا اور کہے گا : اے پروردگار ! وہاں تو سب لوگوں نے اپنی اپنی جگہ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ کیا تو دنیا کے اس زمانے کو یاد کرتا ہے جس زمانے میں تو وہاں تھا (کہ دنیا کتنی بڑی تھی )؟ وہ عرض کرے گا : ہاں پروردگار ! مجھے وہ وقت یاد ہے۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ کوئی آرزو کرو، پس وہ آرزو کرے گا۔ پھر اس سے کہا جائے کہ تمھیں تمھاری آرزو کے مطابق بھی دیا اور پوری دنیا سے دس گناہ زیادہ بھی عطا کیا۔ وہ عرض کرےگا کہ پروردگار ! کیا آپ میرے ساتھ دل لگی کرتے ہیں حالانکہ آپ (بادشاہوں کے) بادشاہ ہیں ؟ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی یہ بات بیان فرمارہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعہ پر ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک دکھائی دینے لگے۔ ‘‘
تشریح : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تبسم فرمانا تعجب کی وجہ سے تھا، اور یہ تعجب اللہ عظیم وبرتر کی رحمتِ کا ملہ پر اور اس شخص کے کلام پر آیا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل کبائر بالآخر جہنم سے نکال لیے جائیں گے اور ان کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا، صرف وہ لوگ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے جن کو قرآن کریم ابدی جہنمی قرار دیتا ہے۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب صفة الجنة والنار (۱۱؍۶۵۷۱)،وکتاب التوحید، باب کلام الرب یوم القیامة مع الأنبیاء (۱۳؍۷۵۱۱)صحیح مسلم،کتاب الإیمان، باب آخر أهل النار خروجا ً (۱؍۳۰۸ برقم ۱۷۳)، سنن ترمذي، أبواب صفة جهنم (۴؍۲۵۹۵)، سنن ابن ماجة، کتاب الزهد، باب صفة الجنة (۲؍۴۳۳۹)، مسند أحمد بن حنبل (۳۵۹۵)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تبسم فرمانا تعجب کی وجہ سے تھا، اور یہ تعجب اللہ عظیم وبرتر کی رحمتِ کا ملہ پر اور اس شخص کے کلام پر آیا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل کبائر بالآخر جہنم سے نکال لیے جائیں گے اور ان کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا، صرف وہ لوگ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے جن کو قرآن کریم ابدی جہنمی قرار دیتا ہے۔