كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ،حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: ((مَا حَجَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَلَا رَآنِي إِلَّا ضَحِكَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کابیان
’’سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاس آنے سے کبھی منع نہیں فرمایا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی مجھے دیکھتے تو ہنس پڑتے۔‘‘
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ملاقات کے وقت خندہ پیشانی سے ملنا مسنون ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کی وجہ بعض شارحین نے یہ لکھی ہے کہ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انہیں یوسفِ ثانی کہا کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے حسن وجمال اور قدو قامت کو دیکھ کر خوشی سے مسکراتے تھے۔
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب مناقب الأنصار (۷؍۳۸۲۲)، وکتاب الجهاد، باب من لا یثبت علی الخیل۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل جریر بن عبدالله (۴؍۱۳۴ برقم ۱۹۲۵)، سنن ترمذي، ابواب المناقب، باب مناقب جریر من عبدالله (۵؍۳۸۲۰)، سنن ابن ماجة، باب في فضائل أصحاب رسول الله صلى الله علیه وسلم، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۳۵۸)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ملاقات کے وقت خندہ پیشانی سے ملنا مسنون ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کی وجہ بعض شارحین نے یہ لکھی ہے کہ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انہیں یوسفِ ثانی کہا کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے حسن وجمال اور قدو قامت کو دیکھ کر خوشی سے مسکراتے تھے۔