شمائل ترمذی - حدیث 224

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْخَلَّالُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ السَّيْلَحَانِيُّ،: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: ((مَا كَانَ ضَحِكُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا تَبَسُّمًا)) قَالَ أَبُو عِيسَى: ((هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 224

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کابیان ’’سیدنا عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی صرف مسکراہٹ تھی (قہقہہ نہیں لگاتے تھے) امام ابوعیسی (ترمذی رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث لیث بن سعد کی حدیثوں سے غریب ہے۔‘‘
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب المناقب، باب في بشاشة النبي صلى الله علیه وسلم (۵؍۳۶۴۲) امام ترمذی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ روایت صحیح غریب ہے۔ اصطلاح محدثین میں غریب حدیث وہ ہو تی ہے جس کے طبقات سند میں کسی ایک طبقہ میں صرف ایک راوی ہو۔ یہ غرابت سند کے آغاز میں بھی ہو سکتی ہے اور اثنائے سند میں بھی اور منتہائے سند میں بھی ہوسکتی ہے۔ سند کے آغاز اور اثناء میں جو غرابت ہو تی ہے اسے غریبِ نسبی کہتے ہیں اور سند کے منتہا میں جو غرابت ہو تی ہے اسے غریبِ مطلق کہا جاتا ہے۔ کسی بھی سند کا غریب ہو نا اس کے صحیح ہو نے کو مانع نہیں ہے کیونکہ غرابت کا تعلق عدد رواۃ سے ہے صحت وسقم روایت سے نہیں۔