كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ، أَنَّهُ قَالَ: ((مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کابیان
’’سیدنا عبداللہ بن الحارث بن جزء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔ ‘‘
تشریح :
معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ بشاشت سے پیش آتے تھے نیزیہ حدیث گذشتہ باب میں موجود الفاظ مُتَوَاصِلُ الْأَحْزَانِ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل غم زدہ رہتے، کے منافی نہیں ہے کیونکہ حزن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیتِ نفس ہے اور بشاشت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے انشراح و انبساط ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خوشی اور مسرت یا تعجب کے موقع پر جس قدر زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبسم اختیار فرماتے تھے اتنا زیادہ کوئی شخص مسکرانے والا نہیں دیکھا گیا۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب المناقب، باب في بشاشة النبي صلى الله علیه وسلم (۵؍۳۶۴۱)، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۱۹۰،۱۹۱) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کی سند میں ابن لھیعہ مدلس راوی ہے اور روایت معنعن ہے۔ لیکن ابوالشیخ نے أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم (ص : ۸۷) میں اس روایت کو عبداللہ بن یزید المقری کے طریق سے نقل کیا ہے اور یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابن لھیعہ سے قبل الاختلاط سماع کیا ہے۔ چنانچہ یہ روایت صحیح الاسناد ہے۔ مزید یہ کہ اس حدیث کی اور سندیں بھی آئندہ سطور میں آرہی ہیں۔
معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ بشاشت سے پیش آتے تھے نیزیہ حدیث گذشتہ باب میں موجود الفاظ مُتَوَاصِلُ الْأَحْزَانِ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل غم زدہ رہتے، کے منافی نہیں ہے کیونکہ حزن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیتِ نفس ہے اور بشاشت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے انشراح و انبساط ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خوشی اور مسرت یا تعجب کے موقع پر جس قدر زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبسم اختیار فرماتے تھے اتنا زیادہ کوئی شخص مسکرانے والا نہیں دیکھا گیا۔