كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ وَهُوَ ابْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: " كَانَ فِي سَاقَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُمُوشَةٌ، وَكَانَ لَا يَضْحَكُ إِلَّا تَبَسُّمًا، فَكُنْتُ إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْهِ قُلْتُ: أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ وَلَيْسَ بِأَكْحَلَ "
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کابیان
’’سیدنا جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیاں کسی قدر باریک تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے نہ تھے صرف مسکراتے، جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا تو ایسے لگتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے حالانکہ سرمہ نہیں لگایا ہو تا تھا۔‘‘
تشریح :
اس حدیث میں سید الانبیاء، پیکر حسن وجمال، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے تین باتوں کا ذکر ہے۔ پہلی بات یہ کہ حضور سراپا حسن جمال صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیاں مبارک قدرے پتلی تھیں کیونکہ ان پر گوشت کم تھا۔ دوسری بات جو ترجمۃ الباب سے تعلق رکھتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی مبارک صرف تبسم یعنی مسکراہٹ تک محدود رہتی تھی۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک کھل جاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار نمایاں ہو جاتے مگر ہنسنے کی آواز نہیں نکلتی تھی۔ تیسری صفت راوی نے یہ بیان کی ہے کہ حضور سید الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں پلکوں کی سیاہی خلقتِ اصلیہ سے تھی، اس لیے دیکھنے والا یہ سمجھتا کہ گویا پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمہ لگا یا ہوا ہے۔
تخریج :
یہ حدیث ضعیف ہے، سنن ترمذي، ابواب المناقب، باب في صفة النبي صلى الله علیه وسلم (۵؍۳۶۴۵)، مسند أحمد بن حنبل (۵؍۱۰۵)، مستدرك حاکم (۲؍۶۰۶) زوائد مسند أحمد (۵؍۹۷)، المعجم الکبیر (۲؍۲۴۴)، شرح السنة (۱۲؍۲۲۲) اس روایت کی سند میں حجاج بن ارطاۃ کثیر الخطا اور مدلس ہے اور روایت معنعن ہے۔
اس حدیث میں سید الانبیاء، پیکر حسن وجمال، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے تین باتوں کا ذکر ہے۔ پہلی بات یہ کہ حضور سراپا حسن جمال صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیاں مبارک قدرے پتلی تھیں کیونکہ ان پر گوشت کم تھا۔ دوسری بات جو ترجمۃ الباب سے تعلق رکھتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی مبارک صرف تبسم یعنی مسکراہٹ تک محدود رہتی تھی۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک کھل جاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار نمایاں ہو جاتے مگر ہنسنے کی آواز نہیں نکلتی تھی۔ تیسری صفت راوی نے یہ بیان کی ہے کہ حضور سید الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں پلکوں کی سیاہی خلقتِ اصلیہ سے تھی، اس لیے دیکھنے والا یہ سمجھتا کہ گویا پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمہ لگا یا ہوا ہے۔