كِتَابُ بَابُ كَيْفَ كَانَ كَلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ،أَنْبَأَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وَلَدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ يُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنٍ لِأَبِي هَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدُ بْنُ أَبِي هَالَةَ، وَكَانَ وَصَّافًا، فَقُلْتُ: صِفْ لِي مَنْطِقَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاصِلَ الْأَحْزَانِ دَائِمَ الْفِكْرَةِ لَيْسَتْ لَهُ رَاحَةٌ، طَوِيلُ السَّكْتِ، لَا يَتَكَلَّمُ فِي غَيْرِ حَاجَةٍ، يَفْتَتِحُ الْكَلَامَ وَيَخْتِمُهُ بِاسْمِ اللَّهِ تَعَالَى، وَيَتَكَلَّمُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ، كَلَامُهُ فَصْلٌ، لَا فُضُولَ وَلَا تَقْصِيرَ، لَيْسَ بِالْجَافِي وَلَا الْمُهِينِ، يُعَظِّمُ النِّعْمَةَ، وَإِنْ دَقَّتْ لَا يَذُمُّ مِنْهَا شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَذُمُّ ذَوَّاقًا وَلَا يَمْدَحُهُ، وَلَا تُغْضِبُهُ الدُّنْيَا، وَلَا مَا كَانَ لَهَا، فَإِذَا تُعُدِّيَ الْحَقُّ لَمْ يَقُمْ لِغَضَبِهِ شَيْءٌ حَتَّى يَنْتَصِرَ لَهُ، وَلَا يَغْضَبُ لِنَفْسِهِ، وَلَا يَنْتَصِرُ لَهَا، إِذَا أَشَارَ أَشَارَ بِكَفِّهِ كُلِّهَا، وَإِذَا تَعَجَّبَ قَلَبَهَا، وَإِذَا تَحَدَّثَ اتَّصَلَ بِهَا، وَضَرَبَ بِرَاحَتِهِ الْيُمْنَى بَطْنَ إِبْهَامِهِ الْيُسْرَى، وَإِذَا غَضِبَ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ، وَإِذَا فَرِحَ غَضَّ طَرْفَهُ، جُلُّ ضَحِكِهِ التَّبَسُّمُ، يَفْتَرُّ عَنْ مِثْلِ حَبِّ الْغَمَامِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کرنے کا انداز
’’سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہماسے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالۃ سے، جو کہ اکثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصافِ کریمانہ بیان فرماتے تھے عرض کیا کہ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کی کیفیت مجھ سے بیان کریں، انہوں نے فرمایا: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اکثر حزن و ملال میں رہتے، ہمیشہ متفکر رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راحت میسر نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر خاموش رہتے، بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے، ابتدائے کلام سے انتہائے کلام تک پورے منہ مبارک کو استعمال فرماتے، گفتگو فرماتے وقت جامع کلام استعمال فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو انتہائی صاف اور واضح ہو تی، ضرورت سے زیادہ نہیں ہو تی تھی، اور نہ ادائیگی مقصود میں کوئی کمی ہو تی تھی، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جفا کرنے والے تھے،اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حقیر وضعیف تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعمت کو بڑی عظمت بخشتے تھے اگرچہ وہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو، اس نعمت میں سے کسی چیز کی مذمت نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ کھانے کی چیزوں کی مذمت نہ کرتے اور نہ ہی زیادہ تعریف کرتے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دنیاوی امر کی وجہ سے غصہ آتا تھا اور نہ ہی کوئی ایسی چیز تھی جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دنیاوی امور میں غصہ آتا، ہاں جب کوئی شخص حق سے تجاوز کر جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کے مقابلے میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی تھی یہاں تک کہ اس کا انتقام لے لیتے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی غصہ نہیں فرمایا اور نہ کبھی اس کا انتقام لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی چیز کی طرف اشارہ فرماتے تو پورے دست ِ مبارک سے اشارہ فرماتے، جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو دست مبارک کی ہتھیلی کو پلٹ دیتے۔ اور جب گفتگو فرماتے تو ہاتھ ملالیتے، اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھا کے اندرونی حصہ پر ملاتے، جب کسی پر ناراض ہو تے تو اس سے رخ انور پھیر لیتے اور جس وقت خوش ہو تے تو نظر یں جھکا لیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال درجے کا ہنسنا صرف تبسم تھا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک سفید اور چمک دار اولے کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ ‘‘
تخریج : یہ حدیث ضعیف ہے اس کی تخریج کے لیے ملاحظہ فرمائیں حدیث نمبر ۸۔