شمائل ترمذی - حدیث 219

كِتَابُ بَابُ كَيْفَ كَانَ كَلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ((مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُدُ سرْدَكُمْ هَذَا، وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ بَيِّنٍ فَصْلٍ، يَحْفَظُهُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 219

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کرنے کا انداز ’’ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ واضح اور صاف صاف گفتگو فرماتے، جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور بیٹھا ہوتا اس گفتگو کو یاد کر لیتا تھا۔‘‘
تشریح : حضور صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب تھے: ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب تھے امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں روایت بیان کی ہے اور اسے صحیح کہا ہے کہ اہلِ جنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لغت میں کلام کریں گے۔( مستدرك حاکم (۴؍۸۷)۔) جامع صغیر میں حدیث ہے کہ عرب سے تین وجہ سے محبت کرو۔ میں عربی ہوں، قرآن کریم عربی زبان میں ہے، اہل جنت کی زبان عربی ہو گی۔ یہ حدیث امام طبرانی، حاکم اور بیہقی رحمہم اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے۔ (مستدرك حاکم (۴؍۸۷)، معجم کبیر طبراني (۱۱۴۴۱)۔) ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح مسلسل اور جلدی جلدی کلام نہیں کرتے تھے کہ سننے والے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو خلط ملط ہو جائے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگونہایت واضح اور بین انداز میں ہوتی اور جدا جدا کلمات ہوتے، جس کا مطلب ومفہوم اتنا واضح ہو تا، کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہو تا وہ اس کلام کو یاد کر لیتا۔
تخریج : یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب المناقب، باب من کلام النبي صلى الله علیه وسلم (۵؍۳۶۳۹)، مسند أحمد بن حنبل (۶؍۲۵۷)، صحیح بخاري، کتاب المناقب (۶؍۳۵۶۷)تعلیقا ً)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة (۴؍۱۶۰ برقم ۱۹۴۰)، سنن أبي داود، کتاب العلم (۳؍۳۶۵۵)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب تھے: ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب تھے امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں روایت بیان کی ہے اور اسے صحیح کہا ہے کہ اہلِ جنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لغت میں کلام کریں گے۔( مستدرك حاکم (۴؍۸۷)۔) جامع صغیر میں حدیث ہے کہ عرب سے تین وجہ سے محبت کرو۔ میں عربی ہوں، قرآن کریم عربی زبان میں ہے، اہل جنت کی زبان عربی ہو گی۔ یہ حدیث امام طبرانی، حاکم اور بیہقی رحمہم اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے۔ (مستدرك حاکم (۴؍۸۷)، معجم کبیر طبراني (۱۱۴۴۱)۔) ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح مسلسل اور جلدی جلدی کلام نہیں کرتے تھے کہ سننے والے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو خلط ملط ہو جائے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگونہایت واضح اور بین انداز میں ہوتی اور جدا جدا کلمات ہوتے، جس کا مطلب ومفہوم اتنا واضح ہو تا، کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہو تا وہ اس کلام کو یاد کر لیتا۔