شمائل ترمذی - حدیث 210

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ شُرْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ زَيْدٍ ابْنِ ابْنَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أُمِّ سُلَيْمٍ وَقِرْبَةٌ مُعَلَّقَةٌ فَشَرِبَ مِنْ فَمِ الْقِرْبَةِ وَهُوَ قَائِمٌ، فَقَامَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَأْسِ الْقِرْبَةِ فَقَطَعَتْهَا))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 210

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے کا انداز ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، (وہاں ) ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکیزے کے منہ سے کھڑے ہو کر پانی پیا، تو سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اٹھ کر مشکیزے کا سر کاٹ ( کر اپنے پاس رکھ ) لیا۔ ‘‘
تشریح : تبر کات کی بحث : اس حدیث سے ثابت ہو تا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبر کات محفوظ رکھتے تھے اور اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں شفاء کے لیے یا تقدس کے طور پر،بہر حال تبرکاتِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو محفوظ رکھنا ایک محبِ صادق کی شان ہے بعض حضرات بالکل منفی پر وپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اہل حدیث تبرکات کے قائل نہیں ہیں بلاشبہ یہ اصحاب الحدیث پر محض بے بنیاد الزام ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں، اصل بات تبرکات کے قائل ہو نے کی نہیں بلکہ تبرکات کے ثبوت کی ہے کہ جن چیزوں کو تبرکاتِ نبوی سمجھا جاتا ہے کیا واقعی وہ تبرکاتِ نبوی میں شامل ہیں یا انہیں صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات میں اپنی طرف سے شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تبرکات کا ذکر کتاب وسنت میں موجود ہے آل موسیٰ اور آل ھارون رحمہم اللہ کے تبرکات کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں سورۃ البقرہ میں کیا ہے۔ جب بنی اسرائیل کا بادشاہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو مقرر کیا (جو بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْم تھا )تو قوم نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور کہا : ﴿قَا لُوْا أَنّٰی یَکُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ یُوْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ﴾ (البقرة : ۲۴۷) ’’کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر بادشاہت وحکومت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔‘‘ تو اس قوم کے نبی (حضرت شمویل علیہ السلام) نے کہا : ﴿قَالَ إِنَّ اللّٰه اصْطَفٰهُ عَلَیْکُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّٰهُ یُوْتِیْ مُلْکَهُ مَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰه ُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾(البقرة : ۱۴۷) ’’نبی نے کہا سنو اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگذیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور خوب علم والا ہے۔‘‘ مزید اپنی قوم سے کہا : ﴿وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ إِنَّ آیَتَ مُلْکِهِ أَنْ یَّا تِیَکُمْ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَکِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّةٌ مِمَّاتَرَكَ آلُ مُوْسیٰ وَآلُ هَارُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِکَةُ﴾(البقرة : ۲۴۸) ’’ان کے نبی نے انہیں پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ھارون کا بقیہ تر کہ ہے، فرشتے اسے اٹھا کر لائیں گے۔‘‘ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’صندوق یعنی تابوت،جو توب سے ہے، جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل تبرک کے لیے اس کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ( فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے‘‘ حضرت حافظ صاحب مزید فرماتے ہیں ’’اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء وصالحین کے تبرکات یقیناً باذن اللہ اہمیت وافادیت رکھتے ہیں، بشرطیکہ وہ واقعی تبرکات ہوں۔ جس طرح اس تابوت میں یقیناً حضرت موسیٰ وھارون علیہما السلام کے تبرکات تھے۔ لیکن محض جھوٹی نسبت سے کوئی چیز متبرک نہیں بن جاتی۔ جس طرح آج کل تبرکات کے نام پر کئی جگہوں پر مختلف چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ جن کا تاریخی طور پر پورا ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح خود ساختہ چیزوں ( اور ان کی تصویروں ) سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ جس طرح بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعل مبارک کی تمثال بنا کر اپنے پاس رکھنے کو، یا گھروں میں لٹکانے کو، یا مخصوص طریقے سے اس کے استعمال کو قضائے حاجات اور دفع بلیات کے لیے اکسیر سمجھتے ہیں۔ اس طرح قبروں پر بزرگوں کے ناموں کی نذر ونیاز کی چیزوں کو اور لنگر کو متبرک سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ غیر اللہ کے نام کا چڑھاوا ہے جو شرک کے دائرے میں آتا ہے اس کا کھانا قطعاً حرام ہے قبروں کا غسل دیا جاتا ہے اور اس کے پانی کو متبرک سمجھا جاتا ہے، حالانکہ قبروں کو غسل دینا بھی خانہ کعبہ کے غسل کی نقل ہے، جس کا کوئی جواز نہیں یہ گندا پانی کیسے متبرک ہو سکتا ہے ؟ بہر حال یہ سب باتیں غلط ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے۔‘‘ ہمارے یہاں پاک و ہند میں تو ’’تبرکاتِ نبوی‘‘ کی اس قدر بہتات وکثرت ہے کہ بہت سے مقامات پر ’’تبرکاتِ نبوی‘‘ کے نام سے علیحدہ طور پر عمارتیں بنائی گئیں ہیں۔ لاہور بادشاہی مسجد میں بھی ’’تبرکاتِ نبوی‘‘ رکھے ہوئے ہیں مگر ان کی اصلیت کی سند کیا ہے ؟ اور جب تک ان کے متبرک ہو نے کا ثبوت نہ ہو ان کو کیسے متبرک سمجھا جاسکتا ہے ؟ عوام الناس میں ان چیزوں کی حرمت وتقدس کے باوصف بعض دفعہ ان کی آڑلے کر قتل وغارت اور فساد وخرابی کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ چل نکلتا ہے جیسا کہ کشمیر میں موئے مبارک کی چوری کے مسئلہ پر کتنی جانیں تلف ہوئیں اس طرح گذشتہ سالوں میں بادشاہی مسجد لاہور سے نعلین مبارک کے چوری ہو نے پر کتنی جانیں تلف ہوئیں اور کس قدر احتجاج کیا گیا پھر بعض مفاد پرست اور مطلب پرست نام نہاد عاشقانِ رسول اپنے مذموم مفاد ومقاصد حاصل کر کے خاموش ہوگئے حالانکہ اس بات کا کوئی ثبوت کسی کے پاس نہیں کہ یہ موئے مبارک اور نعلین شریفین واقعی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ ہمارے عام مسلمانوں کی حالت تو یہ ہے کہ قرآن و سنت پر ہمارا عمل نہیں، فرائض و واجبات کی کچھ پروا ہ نہیں کرتے، حقوق العباد کا ذرا خیال نہیں کرتے مگر تبرکات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ؏ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا! کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ورحم الله عبداً قال آمیناً۔
تخریج : یہ حدیث فی نفسہ صحیح نہیں ہے ہاں گذشتہ روایت نمبر ۲۰۸میں اس کا شاہد موجود ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث معنیً صحیح ہے۔ سند میں براء بن زید سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے نوا سے ہیں معیارِ صدق وکذب میں مجہول درجہ کے ہیں۔ مسند أحمد بن حنبل (۳؍۱۱۹)، (۶،۳۷۶، ۴۳۱) سنن دارمي، کتاب الأشربة (۲؍۲۱۲۴)، شرح معاني الآثار (۴؍۲۷۴)،شرح السنة (۱۱؍۳۷۹)، مسند الطیالسی برقم (۱۶۵۰)۔ تبر کات کی بحث : اس حدیث سے ثابت ہو تا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبر کات محفوظ رکھتے تھے اور اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں شفاء کے لیے یا تقدس کے طور پر،بہر حال تبرکاتِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو محفوظ رکھنا ایک محبِ صادق کی شان ہے بعض حضرات بالکل منفی پر وپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اہل حدیث تبرکات کے قائل نہیں ہیں بلاشبہ یہ اصحاب الحدیث پر محض بے بنیاد الزام ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں، اصل بات تبرکات کے قائل ہو نے کی نہیں بلکہ تبرکات کے ثبوت کی ہے کہ جن چیزوں کو تبرکاتِ نبوی سمجھا جاتا ہے کیا واقعی وہ تبرکاتِ نبوی میں شامل ہیں یا انہیں صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات میں اپنی طرف سے شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تبرکات کا ذکر کتاب وسنت میں موجود ہے آل موسیٰ اور آل ھارون رحمہم اللہ کے تبرکات کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں سورۃ البقرہ میں کیا ہے۔ جب بنی اسرائیل کا بادشاہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو مقرر کیا (جو بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْم تھا )تو قوم نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور کہا : ﴿قَا لُوْا أَنّٰی یَکُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ یُوْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ﴾ (البقرة : ۲۴۷) ’’کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر بادشاہت وحکومت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔‘‘ تو اس قوم کے نبی (حضرت شمویل علیہ السلام) نے کہا : ﴿قَالَ إِنَّ اللّٰه اصْطَفٰهُ عَلَیْکُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّٰهُ یُوْتِیْ مُلْکَهُ مَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰه ُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾(البقرة : ۱۴۷) ’’نبی نے کہا سنو اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگذیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور خوب علم والا ہے۔‘‘ مزید اپنی قوم سے کہا : ﴿وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ إِنَّ آیَتَ مُلْکِهِ أَنْ یَّا تِیَکُمْ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَکِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّةٌ مِمَّاتَرَكَ آلُ مُوْسیٰ وَآلُ هَارُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِکَةُ﴾(البقرة : ۲۴۸) ’’ان کے نبی نے انہیں پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ھارون کا بقیہ تر کہ ہے، فرشتے اسے اٹھا کر لائیں گے۔‘‘ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’صندوق یعنی تابوت،جو توب سے ہے، جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل تبرک کے لیے اس کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ( فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے‘‘ حضرت حافظ صاحب مزید فرماتے ہیں ’’اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء وصالحین کے تبرکات یقیناً باذن اللہ اہمیت وافادیت رکھتے ہیں، بشرطیکہ وہ واقعی تبرکات ہوں۔ جس طرح اس تابوت میں یقیناً حضرت موسیٰ وھارون علیہما السلام کے تبرکات تھے۔ لیکن محض جھوٹی نسبت سے کوئی چیز متبرک نہیں بن جاتی۔ جس طرح آج کل تبرکات کے نام پر کئی جگہوں پر مختلف چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ جن کا تاریخی طور پر پورا ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح خود ساختہ چیزوں ( اور ان کی تصویروں ) سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ جس طرح بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعل مبارک کی تمثال بنا کر اپنے پاس رکھنے کو، یا گھروں میں لٹکانے کو، یا مخصوص طریقے سے اس کے استعمال کو قضائے حاجات اور دفع بلیات کے لیے اکسیر سمجھتے ہیں۔ اس طرح قبروں پر بزرگوں کے ناموں کی نذر ونیاز کی چیزوں کو اور لنگر کو متبرک سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ غیر اللہ کے نام کا چڑھاوا ہے جو شرک کے دائرے میں آتا ہے اس کا کھانا قطعاً حرام ہے قبروں کا غسل دیا جاتا ہے اور اس کے پانی کو متبرک سمجھا جاتا ہے، حالانکہ قبروں کو غسل دینا بھی خانہ کعبہ کے غسل کی نقل ہے، جس کا کوئی جواز نہیں یہ گندا پانی کیسے متبرک ہو سکتا ہے ؟ بہر حال یہ سب باتیں غلط ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے۔‘‘ ہمارے یہاں پاک و ہند میں تو ’’تبرکاتِ نبوی‘‘ کی اس قدر بہتات وکثرت ہے کہ بہت سے مقامات پر ’’تبرکاتِ نبوی‘‘ کے نام سے علیحدہ طور پر عمارتیں بنائی گئیں ہیں۔ لاہور بادشاہی مسجد میں بھی ’’تبرکاتِ نبوی‘‘ رکھے ہوئے ہیں مگر ان کی اصلیت کی سند کیا ہے ؟ اور جب تک ان کے متبرک ہو نے کا ثبوت نہ ہو ان کو کیسے متبرک سمجھا جاسکتا ہے ؟ عوام الناس میں ان چیزوں کی حرمت وتقدس کے باوصف بعض دفعہ ان کی آڑلے کر قتل وغارت اور فساد وخرابی کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ چل نکلتا ہے جیسا کہ کشمیر میں موئے مبارک کی چوری کے مسئلہ پر کتنی جانیں تلف ہوئیں اس طرح گذشتہ سالوں میں بادشاہی مسجد لاہور سے نعلین مبارک کے چوری ہو نے پر کتنی جانیں تلف ہوئیں اور کس قدر احتجاج کیا گیا پھر بعض مفاد پرست اور مطلب پرست نام نہاد عاشقانِ رسول اپنے مذموم مفاد ومقاصد حاصل کر کے خاموش ہوگئے حالانکہ اس بات کا کوئی ثبوت کسی کے پاس نہیں کہ یہ موئے مبارک اور نعلین شریفین واقعی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ ہمارے عام مسلمانوں کی حالت تو یہ ہے کہ قرآن و سنت پر ہمارا عمل نہیں، فرائض و واجبات کی کچھ پروا ہ نہیں کرتے، حقوق العباد کا ذرا خیال نہیں کرتے مگر تبرکات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ؏ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا! کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ورحم الله عبداً قال آمیناً۔