شمائل ترمذی - حدیث 21

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَاتَمِ النُّبُوَّةِ حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ قَالَ: أَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ، يَقُولُ: جَاءَ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ بِمَائِدَةٍ عَلَيْهَا رُطَبٌ فَوَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ((يَا سَلْمَانُ مَا هَذَا؟)) فَقَالَ: صَدَقَةٌ عَلَيْكَ وَعَلَى أَصْحَابِكَ، فَقَالَ: ((ارْفَعْهَا، فَإِنَّا لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ)) قَالَ: فَرَفَعَهَا، فَجَاءَ الْغَدَ بِمِثْلِهِ، فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ((مَا هَذَا يَا سَلْمَانُ؟)) فَقَالَ: هَدِيَّةٌ لَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: ((ابْسُطُوا)) ثُمَّ نَظَرَ إِلَی الْخَاتَمِ عَلَی ظَهْرِ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِهِ۔ وَکَانَ لِلْیَهُوْدِ، فَاشْتَرَاهُ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَذَا وَکَذَا دِرْهَمًا وَعَلَی أَنْ یَغْرِسَ لَهُمْ نَخْلًا فَیَعْمَلَ سَلْمَانُ فِیْهِ حَتَّی تُطْعِمَ۔فَغَرَسَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخِیْلَ إِلاَّ نَخْلَةً وَاحِدَةً غَرَسَهَا عُمَرُ رضي الله عنه، فَحَمَلَتِ النَّخْلُ مِنْ عَامِهَا وَلَمْ تَحْمِلِ النَّخْلَةُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ’’مَا شَأْنُ هَذِهِ النَّخْلَةِ؟‘‘ فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا غَرَسْتُهَا۔ فَنَزَعَهَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَغَرَسَهَا فَحَمَلَتْ مِنْ عَامِهَا۔

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 21

کتاب مہرِ نبوت کابیان ’’عبداللہ بن بریدۃ کہتے ہیں میں نے اپنے والد سیدنا بریدۃ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے، تو سیّدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دستر خوان لے کر آئے، جس میں کچھ تروتازہ کھجوریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسے رکھ دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے سلمان! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور آپ کے صحابہ(رضی اللہ عنہم)کے لیے صدقہ ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے اٹھا لو، ہم صدقہ نہیں کھاتے۔‘‘ (راوی کہتا ہے) انہوں نے وہ دستر خوان اٹھا دیا۔ پھر دوسرے دن اسی طرح وہ ایک دستر خوان لائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’سلمان یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے لیے ہدیہ ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: اس کو بچھا دو۔ پھر سلمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر مہر دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ سلمان رضی اللہ عنہ چونکہ یہود کے غلام تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اتنے اور اتنے درہموں کے بدلے خرید لیا، نیز اس عوض میں کہ سلمان ان یہود کو کچھ کھجوروں کے پودے لگا کر دیں پھر ان کے پھل آور ہو نے اور کھائے جانے کے قابل ہو نے تک اس میں کام بھی کریں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بابر کت ہاتھ سے سارے پودے لگائے، صر ف ایک پودا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لگایا، تو باقی تمام پودے پہلے سال ہی پھلدار ہو گئے صرف ایک پودا ثمر آور نہیں ہوا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا وجہ ہے؟ یہ ایک پودا کیوں ثمر آور نہیں ہوا؟‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ میں نے لگایا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اکھیڑ کر دوبارہ لگا دیا تو وہ اسی سال پھلدار ہو گیا۔ ‘‘
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ قبول نہیں فرماتے تھے، ہدیہ قبول فرمالیتے۔ صدقہ اسے کہتے ہیں جو اعلیٰ ادنیٰ کو دیتا ہے، اور اس سے مقصود آخرت میں اچھا عوض اور اللہ تعالیٰ کے تقرب کا حصول ہے، لیکن ھدیۃ میں اعلیٰ سے ادنیٰ اور تقرب الی اللہ کی قید نہیں ہوتی، بلکہ جس کو ہدیہ دیا جارہا ہے اس کی تکریم تعظیم مقصود ہوتی ہے، اور اس کا بدلہ اسی نے دینا ہو تا ہے جسے ہدیہ دیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرمالیتے اور اس کا بدل بھی دیتے تھے۔
تخریج : مسند أحمد بن حنبل (۵؍ ۳۵۴)، صحیح ابن حبان (۱۰؍ ۱۲۸)، المستدرك للحاکم (۳؍ ۶۰۳، ۶۰۴)۔ اس روایت کی سند حسن ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ قبول نہیں فرماتے تھے، ہدیہ قبول فرمالیتے۔ صدقہ اسے کہتے ہیں جو اعلیٰ ادنیٰ کو دیتا ہے، اور اس سے مقصود آخرت میں اچھا عوض اور اللہ تعالیٰ کے تقرب کا حصول ہے، لیکن ھدیۃ میں اعلیٰ سے ادنیٰ اور تقرب الی اللہ کی قید نہیں ہوتی، بلکہ جس کو ہدیہ دیا جارہا ہے اس کی تکریم تعظیم مقصود ہوتی ہے، اور اس کا بدلہ اسی نے دینا ہو تا ہے جسے ہدیہ دیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرمالیتے اور اس کا بدل بھی دیتے تھے۔