كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ شُرْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْكُوفِيُّ، قَالَا: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْفُضَيْلِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ قَالَ: ((أَتَى عَلِيٌّ، بِكُوزٍ مِنْ مَاءٍ وَهُوَ فِي الرَّحْبَةِ فَأَخَذَ مِنْهُ كَفًّا فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَمَسَحَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَرَأْسَهُ، ثُمَّ شَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ)) ، ثُمَّ قَالَ: ((هَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ، هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے کا انداز
’’نزال بن سبرۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس پانی کا ایک کوزہ (پیالہ )لایا گیا جب کہ آپ رحبہ کے مقام پر تھے، آپ نے اس سے ایک چلو لیا اور دونوں ہاتھ دھوئے، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، اور چہرہ، کلائیوں اور سر کا مسح کیا، پھر کھڑے ہو نے کی حالت میں اس پانی سے پیا اور فرمایا : یہ اس شخص کا وضو ہے جو بے وضو نہ ہو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ ‘‘
تشریح :
حدیث الباب میں وضو سے مراد عرفی وضو ہے شروع میں ’’کفا‘‘ ہے یعنی ایک ہتھیلی پانی لیا اس سے سارے کام کیے، ہاتھ بھی دھوئے، کلی بھی کی، ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرے اور کلائیوں کا اور بعض روایات کے مطابق پاؤں کا بھی مسح کیا، یعنی یہ سب وضوء عرفی ہوا۔
اس حدیث سے وضو کا بقیہ پانی کھڑے ہو کر پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب الأشربة، باب الشرب قائما (۱۰؍ ۱۶۱۵، ۱۶۱۶) مختصر اً ومطولا ً، سنن نسائي، کتاب الطهارة (۱؍۱۳۰)،سنن أبي داود، کتاب الأشربة(۳؍۳۸۱۸)،مسند أحمد بن حنبل(۱؍۷۸،۱۲۳، ۱۳۹،۱۴۴،۱۵۳)، صحیح ابن حبان (۷؍۵۳۰۲بتقریب الاحسان)، صحیح ابن خزیمة (۱؍۱۶۷،۲۰۲)۔
حدیث الباب میں وضو سے مراد عرفی وضو ہے شروع میں ’’کفا‘‘ ہے یعنی ایک ہتھیلی پانی لیا اس سے سارے کام کیے، ہاتھ بھی دھوئے، کلی بھی کی، ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرے اور کلائیوں کا اور بعض روایات کے مطابق پاؤں کا بھی مسح کیا، یعنی یہ سب وضوء عرفی ہوا۔
اس حدیث سے وضو کا بقیہ پانی کھڑے ہو کر پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔