كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ شُرْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ں حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، وَمُغِيرَةُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ مِنْ زَمْزَمَ وَهُوَ قَائِمٌ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے کا انداز
’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آب ِزمزم کھڑے ہو کر پیا۔‘‘
تشریح :
صحیحین کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آبِ زمزم کا ایک ڈول لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے اس میں سے پیا (صحیح بخاري، کتاب الحج، باب ما جاء في زمزم، حدیث:۱۶۳۷۔ صحیح مسلم، کتاب الاشربة، باب فی الشرب من زمزم قائما، حدیث:۱۱۸؍۲۰۲۷۔)حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا ہے بلکہ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ’’کوئی شخص کھڑے ہو کر پانی نہ پئے، اور جو پی لے تو اسے چاہیے کہ وہ قے کر دے‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب في الشرب قائما، حدیث ۲۰۲۶۔)ان احادیث میں تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ کھڑے ہو کر پینا بطورِ جواز ہے اور ممانعت تنز یہی ہے۔ جن لوگوں نے کھڑے ہو کر پانی پینے میں رخصت دی ہے ان میں سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدہ عائشہ رضی الله عنہم کے نام ملتے ہیں۔
روایات کے مجموعہ کو دیکھتے ہوئے ہمارا اس بارے میں موقف یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پینا اچھا فعل نہیں ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر کھڑے ہو کر آبِ زمزم پیا تو یہ ازدحام اور بھیڑزیادہ ہو نے ا ور بیٹھنے کی سہولت کم ہو نے کے عذر پر محمول کیا جائے گا ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی بیٹھ کر پینا ہی تھا۔ واللہ اعلم۔
تخریج :
صحیح بخاری،کتاب الحج، باب ماجاء في زمزم(۳؍۱۶۳۷)وکتاب الأشربة(۱۰؍۵۶۱۷)، صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب في الشرب قائما(۳؍۱۱۸،۱۱۹ برقم ۱۶۰۲)، سنن ترمذي، أبواب الأشربة(۴؍۱۸۸۲)،سنن نسائي ،کتاب المناسك(۵؍۲۳۷)،سنن ابن ماجة،کتاب الأشربة (۲؍۳۴۲۲)، مسند أحمد بن حنبل (۱؍۲۱۴،۲۴۳،۲۴۹،۲۸۷،۳۶۹،۳۷۰،۳۷۲)۔
صحیحین کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آبِ زمزم کا ایک ڈول لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے اس میں سے پیا (صحیح بخاري، کتاب الحج، باب ما جاء في زمزم، حدیث:۱۶۳۷۔ صحیح مسلم، کتاب الاشربة، باب فی الشرب من زمزم قائما، حدیث:۱۱۸؍۲۰۲۷۔)حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا ہے بلکہ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ’’کوئی شخص کھڑے ہو کر پانی نہ پئے، اور جو پی لے تو اسے چاہیے کہ وہ قے کر دے‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب في الشرب قائما، حدیث ۲۰۲۶۔)ان احادیث میں تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ کھڑے ہو کر پینا بطورِ جواز ہے اور ممانعت تنز یہی ہے۔ جن لوگوں نے کھڑے ہو کر پانی پینے میں رخصت دی ہے ان میں سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدہ عائشہ رضی الله عنہم کے نام ملتے ہیں۔
روایات کے مجموعہ کو دیکھتے ہوئے ہمارا اس بارے میں موقف یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پینا اچھا فعل نہیں ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر کھڑے ہو کر آبِ زمزم پیا تو یہ ازدحام اور بھیڑزیادہ ہو نے ا ور بیٹھنے کی سہولت کم ہو نے کے عذر پر محمول کیا جائے گا ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی بیٹھ کر پینا ہی تھا۔ واللہ اعلم۔