كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ شَرَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ں حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ((كَانَ أَحَبَّ الشَّرَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحُلْوُ الْبَارِدُ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشروبات کابیان
’’ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پینے کی چیزوں میں جو سب سے زیادہ پسند تھی وہ ٹھنڈا میٹھا شربت تھا۔‘‘
تشریح :
ٹھنڈا پانی زہد کے خلاف نہیں :
اس حدیث سے ثابت ہو تا ہے کہ میٹھا پانی حاصل کرنا اور پینا زہد کے خلاف نہیں ہے، اور مذموم عیاشی اور فراخی میں شامل نہیں، سنن ابوداؤد میں ہے کہ رسولِ مقبول جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سقیا سے میٹھا پانی لایا جاتا تھا جو مدینہ سے دودن کی مسافت پر تھا۔ (سنن أبي داود، کتاب الأشربة، فی إیکاء الأنیة، حدیث:۳۷۳۵۔)
ابوالحسن شازلی رحمہ اللہ کہتے ہیں : جب میں میٹھا پانی پیتا ہوں تو دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شکریہ بجا لاتا ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد شہد ملا پانی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر نہیں دیکھی۔ نیز شہد میں شفا بھی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ ﴿فِیْهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ﴾ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : فاضل اطباء ہی صحت کی حفاظت جانتے ہیں اگرشہد پیا جائے یا خالی پیٹ اسے چاٹا جائے تو بلغم بہا کر لے جائے گا اور معدے کا بوجھ دھوڈالے گا، اور معدے کی آلائشوں کو صاف کر دے گا اور اس سے تمام فاضل مواد دور کردے گا۔ خالی پیٹ شہد پینا معدے کو معتدل گرم رکھتا ہے اور اس کے سدے کھول دیتا ہے اور ٹھنڈا پانی حرارت کو کاٹ دیتا ہے اور بدن کی حفاظت کرتا ہے۔
بعض حُلْوٌ بَارِدٌسے مراد خالص دودھ لیتے ہیں یا اس میں پانی ملا کر پینا مراد لیتے ہیں کیونکہ تازہ دودھ گرم ہو تا ہے۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں گئے اور پوچھا: کیا تمہارے پاس ایسا پانی ہے جو رات بھر مشکیزے میں رہا ہو، ورنہ ہم،منہ سے پانی پی لیں گے تو وہ اپنے چھپر کی طرف گیا، اور ایک پیالے میں پانی ڈال کر، اور اس پر ایک بکری کا دودھ دوھ کر لے آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی نوش فرمایا۔( صحیح بخاري، کتاب الأشربة، باب شرب اللبن بالماء، حدیث:۵۶۱۳۔) الغرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھنڈا اور میٹھا مشروب بہت پسند تھا۔ چاہے خالص پانی ہو یا میٹھا ملا ہوا ہو۔ اسی طرح خالص دودھ ہو یا ٹھنڈا پانی اس میں ملا ہوا ہو۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب الأشربة، باب أيّ الشراب کان أحب إلی رسول الله صلى الله عليه وسلم (۴؍۱۸۹۵)، مسند أحمد بن حنبل (۶؍۳۸،۴۰)، مستدرك حاکم (۴؍۱۳۷)، أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص : ۲۴۷)، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کی علت اس کا مرسل ہو نا ذکر کی ہے اور فرماتے ہیں : صحیح وہ ہے جو امام زہری عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مرسلا ً مروی ہے۔ جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ مستدرک میں فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح علی شرط الشیخین ہے۔ لیکن شیخین نے اسے روایت نہیں کیا۔ یہ یمانیین کے ہاں معمر سے مروی نہیں ہے امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : معمر نے اس روایت کو یمن میں بیان نہیں کیا۔ یہ روایت مستدرك حاکم میں عبداللہ بن محمد بن یحییٰ بن عروہ عن ہشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ کے طریق سے مروی ہے۔ امام البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع الصغیر (۴۶۲۷)میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ٹھنڈا پانی زہد کے خلاف نہیں :
اس حدیث سے ثابت ہو تا ہے کہ میٹھا پانی حاصل کرنا اور پینا زہد کے خلاف نہیں ہے، اور مذموم عیاشی اور فراخی میں شامل نہیں، سنن ابوداؤد میں ہے کہ رسولِ مقبول جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سقیا سے میٹھا پانی لایا جاتا تھا جو مدینہ سے دودن کی مسافت پر تھا۔ (سنن أبي داود، کتاب الأشربة، فی إیکاء الأنیة، حدیث:۳۷۳۵۔)
ابوالحسن شازلی رحمہ اللہ کہتے ہیں : جب میں میٹھا پانی پیتا ہوں تو دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شکریہ بجا لاتا ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد شہد ملا پانی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر نہیں دیکھی۔ نیز شہد میں شفا بھی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ ﴿فِیْهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ﴾ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : فاضل اطباء ہی صحت کی حفاظت جانتے ہیں اگرشہد پیا جائے یا خالی پیٹ اسے چاٹا جائے تو بلغم بہا کر لے جائے گا اور معدے کا بوجھ دھوڈالے گا، اور معدے کی آلائشوں کو صاف کر دے گا اور اس سے تمام فاضل مواد دور کردے گا۔ خالی پیٹ شہد پینا معدے کو معتدل گرم رکھتا ہے اور اس کے سدے کھول دیتا ہے اور ٹھنڈا پانی حرارت کو کاٹ دیتا ہے اور بدن کی حفاظت کرتا ہے۔
بعض حُلْوٌ بَارِدٌسے مراد خالص دودھ لیتے ہیں یا اس میں پانی ملا کر پینا مراد لیتے ہیں کیونکہ تازہ دودھ گرم ہو تا ہے۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں گئے اور پوچھا: کیا تمہارے پاس ایسا پانی ہے جو رات بھر مشکیزے میں رہا ہو، ورنہ ہم،منہ سے پانی پی لیں گے تو وہ اپنے چھپر کی طرف گیا، اور ایک پیالے میں پانی ڈال کر، اور اس پر ایک بکری کا دودھ دوھ کر لے آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی نوش فرمایا۔( صحیح بخاري، کتاب الأشربة، باب شرب اللبن بالماء، حدیث:۵۶۱۳۔) الغرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھنڈا اور میٹھا مشروب بہت پسند تھا۔ چاہے خالص پانی ہو یا میٹھا ملا ہوا ہو۔ اسی طرح خالص دودھ ہو یا ٹھنڈا پانی اس میں ملا ہوا ہو۔