كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي فَاكِهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ، قَالَتْ: بَعَثَنِي مُعَاذُ بْنُ عَفْرَاءَ بِقِنَاعٍ مِنْ رُطَبٍ وَعَلَيْهِ أَجْرٌ مِنْ قِثَّاءِ زُغْبٍ، ((وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْقِثَّاءَ، فَأَتَيْتُهُ بِهِ وَعِنْدَهُ حِلْيَةٌ قَدْ قَدِمَتْ عَلَيْهِ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، فَمَلَأَ يَدَهُ مِنْهَا فَأَعْطَانِيهِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے میوہ جات(تناول فرمانے) کا بیان
’’سیدتنا ربیع بنت معوذ بن عفرا رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں مجھے سیدنا معاذ بن عفرا رضی اللہ عنہ نے تازہ کھجوروں کا ایک تھال دے کر بھیجا جس میں روئی والی چھوٹی چھوٹی ککڑیاں بھی تھیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ککڑی بڑی پسند تھی۔ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ لائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے کچھ زیورات آئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنی ایک مٹھی بھر کر مجھے عنایت فرمائے۔ ‘‘
تخریج : یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام ھیثمی رحمہ اللہ نے اسے مجمع الزوائد (۹،۱۳)میں ذکر کر کے لکھا ہے کہ اسے امام طبرانی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے حدیث کے مذکورہ الفاظ بھی طبرانی کی روایت کے ہیں اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح یہ روایت نقل کی ہے اور ان دونوں کی سندیں حسن درجہ کی ہیں، لیکن اس روایت میں ابراہیم بن المختار راوی صدوق سیئی الحفظ ہیں اسی طرح محمد بن اسحاق مدلس راوی ہیں اور عنعنہ کے انداز میں روایت کررہے ہیں، اسی طرح محمد بن عمار بن یاسر بھی متابعات میں قابل قبول ہیں، اس کی متابعت اگرچہ شریک عن عبد اللہ بن محمد بن عقیل کے طریق سے موجود ہے جیسا کہ اگلی روایت میں آرہا ہے لیکن شریک بن عبداللہ بھی صدوق ہیں اور ان کا حافظہ اس وقت سے کمزور ہے جبکہ کوفہ میں منصب قضاء پر متمکن ہوئے اور عبداللہ بن محمد بن عقیل، جن سے شریک بن عبداللہ روایت کرتے ہیں وہ بھی صدوق ہیں مگر ان کی روایت میں کمزور ی ہے۔ علامہ البانی نے مختصر الشمائل میں اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور تفصیل کے لیے سلسلہ ضعیفہ کی طرف مراجعت کا کہا ہے۔ ہمارے نزدیک اس روایت میں مندرجہ ذیل تین کمزوریاں ہیں۔
۱: ابراہیم بن المختار صدوق سئی الحفظ ( برے اور کمزور حافظ والے ) ہیں۔
۲: محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کرتے ہیں۔
۳: ابوعبیدۃ محمد بن عمار بن یاسر، انہیں صرف امام ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے، متابعات میں قابل قبول ہیں اور ان کی متابعت شریک بن عبداللہ کی روایت سے ہو رہی ہے لیکن شریک بذاتِ خود کمزور حافظے والے ہیں۔
لہٰذا یہ رو ایت ضعیف ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔