شمائل ترمذی - حدیث 192

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَدَحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، وَثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: ((لَقَدْ سَقَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْقَدَحِ الشَّرَابَ كُلَّهُ، الْمَاءَ وَالنَّبِيذَ وَالْعَسَلَ وَاللَّبَنَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 192

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیالے کا بیان ’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیالے میں ہر قسم کا مشروب، پانی، نبیذ، شہد اور دودھ پلایا۔‘‘
تشریح : حدیث الباب سے ثابت ہو تا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم برتن استعمال فرماتے تھے، برتنوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، بعض جاہل صوفی حضرات کا خیال ہے کہ برتن استعمال کرنا زھد کے منافی ہے اور دنیا داری کی رغبت پیدا کرنے کے سامان میں سے ہے اور پھر اس بارے میں حضرت مسیح علیہ السلام اور بعض عابدوں کے واقعات وقصص بیان کرتے ہیں کہ ان اصحابِ زہد کے ہاں برتن کا استعمال عام نہیں تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے بے سروپا قصص پر تصوف کی بنیاد کوئی معنی نہیں رکھتی، دوسری بات یہ ہے کہ بفرض ِ محال ان قصص کو قبول بھی کر لیا جائے تو یہ ان اصحابِ زہد کا اپنا عمل ہے جس میں منع کی کوئی دلیل نہیں، پھر ہمارے لیے تو اسوۂ حسنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے برتن استعمال کرنا ثابت ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں کے علاوہ جو برتن بھی میسر آئیں، انہیں بوقتِ ضرورت استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بَا بُ مَا جَاءَ فِيْ قَدَ حِ رَسُوْ لِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیَهِ وَسَلَّمَ مکمل ہوا۔ والحمد للّٰه علی ذالك
تخریج : صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب إباحة النبیذ الذي لم یشتد (۳،۸۹ برقم ۱۵۹۱)، مستدرك حاکم (۴؍۱۰۵) امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے صحیح علی شرط مسلم کہا ہے اور ذہبی رحمہ اللہ نے اس پر موافقت کی ہے، أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص : ۲۴۰)۔ حدیث الباب سے ثابت ہو تا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم برتن استعمال فرماتے تھے، برتنوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، بعض جاہل صوفی حضرات کا خیال ہے کہ برتن استعمال کرنا زھد کے منافی ہے اور دنیا داری کی رغبت پیدا کرنے کے سامان میں سے ہے اور پھر اس بارے میں حضرت مسیح علیہ السلام اور بعض عابدوں کے واقعات وقصص بیان کرتے ہیں کہ ان اصحابِ زہد کے ہاں برتن کا استعمال عام نہیں تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے بے سروپا قصص پر تصوف کی بنیاد کوئی معنی نہیں رکھتی، دوسری بات یہ ہے کہ بفرض ِ محال ان قصص کو قبول بھی کر لیا جائے تو یہ ان اصحابِ زہد کا اپنا عمل ہے جس میں منع کی کوئی دلیل نہیں، پھر ہمارے لیے تو اسوۂ حسنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے برتن استعمال کرنا ثابت ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں کے علاوہ جو برتن بھی میسر آئیں، انہیں بوقتِ ضرورت استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بَا بُ مَا جَاءَ فِيْ قَدَ حِ رَسُوْ لِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیَهِ وَسَلَّمَ مکمل ہوا۔ والحمد للّٰه علی ذالك