شمائل ترمذی - حدیث 19

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَاتَمِ النُّبُوَّةِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ، إِذَا وَصَفَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ - وَقَالَ: ((بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ، وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 19

کتاب مہرِ نبوت کابیان ’’ ابراہیم بن محمد علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت ؍ حلیہ بیان کرتے....پھر انہوں نے طویل حدیث بیان کی جس میں فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان نبوت کی مہر تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النّبیین تھے۔ ‘‘
تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء والرسل ہیں : اس روایت میں ذکر ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی نبی نہیں آئے گا۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿مَاکَانَ مُحَّمدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ﴾[الأحزاب:۴۰] ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔ ‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ﴿قُلْ یٰٓأَیُّهَا النَّاسُ إِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا﴾[الأعراف:۱۵۸] ’’ کہہ دیجیے: اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ اور بھی بہت سی آیات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہو نے کا ثبوت ملتا ہے۔ احادیث بھی اس موضوع پر بہت زیادہ ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میری مثال اور پہلے انبیاء کی مثال ایک محل کی طرح ہے، جس کو بہت اچھی طرح بنایا گیا۔ مگر اس سے ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی، تو دیکھنے والے جب اس کے پاس آتے ہیں تو اس کی خوبصورتی سے خوش ہوتے ہیں۔ مگر یہ ایک اینٹ کی جگہ (اس کی خوبصورتی کو داغدار کرتی تھی) تو یہ جگہ میں نے پُر کردی اور یہ عمارت مجھ سے مکمل کردی گئی۔ اور رسول محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر ختم کر دیے گئے۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، حدیث:۳۵۳۴۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونه صلى الله علیه وسلم خاتم النبیین، حدیث:۲۲۸۷ واللفظ له۔) ایک روایت میں ہے کہ ’’ یہ اینٹ میں ہی ہوں اور میں ہی رسولوں (کے سلسلے) کو ختم کرنے والا ہوں۔ ‘‘ (صحیح بخاري، کتاب المناقب باب خاتم النبیین، حدیث:۳۵۳۵۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونه صلى الله علیه وسلم خاتم النبیین، حدیث:۲۲؍۲۲۸۷۔) اسی طرح صحیح بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث ہے کہ: (( کَانَتْ بَنُوْا إِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِیَاءُ کُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَّفَهُ نَبِیٌّ وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ۔))( صحیح بخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بني اسرائیل، حدیث:۳۴۵۵۔ صحیح مسلم، کتاب الأمارة، باب وجوب الوفاء ببیعة الخلیفة، حدیث:۱۸۴۲۔) ’’ بنی اسرئیل کا نظمِ ملکی انبیاء چلاتے تھے، جب بھی کوئی نبی فوت ہوتاتو اس کی جگہ پر دوسرا نبی آجاتا، لیکن میرے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں ہوگا، اس لیے خلفاء ہوں گے اور بہت زیادہ ہوں گے۔ ‘‘ صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ أُعْطِیْتُ جَوَامِعُ الْکَلَمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُوْرًا وَأُرْسِلَتْ إِلَی النَّاسِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ الْنَّبِیُّوْنَ۔))( صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد ومواضع الصلاة، حدیث:۶؍۵۲۳۔) ’’ مجھے دوسرے تمام انبیاء پر چھ چیزوں سے فضیلت دی گئی ہے، مجھے جامع کلمات (ایسے کلمات جن کے الفاظ تھوڑے ہوں اور ان کا مفہوم بہت زیادہ ہو۔ ) عطا کیے گئے۔ اور مجھے رعب اور دبدبے کے ذریعے مدد ی گئی ( کہ میں دشمن سے ایک مہینے کی مسافت پر ہو تا ہوں تو اللہ تعالیٰ میرا رعب اور دبدبہ دشمن کے دل میں ڈال دیتا ہے ) اور میرے لیے غنیمتیں حلال کر دی گئیں، ( جبکہ مجھ سے پہلے انبیاء کے ادوار میں ایسا تھا کہ مال غنیمت اکٹھا کر کے کسی اونچی جگہ یا وسیع جگہ رکھ دیا جاتا، اور آگ اسے کھا جاتی اگر اس میں کوئی غلول ہوتا تو آگ نہ کھاتی ) اور میرے لیے پوری زمین سجدہ گاہ بنا دی گئی اورپاک کرنے والی بنا دی گئی، اور مجھے کائنات کے تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا، اور مجھے خاتم النّبیین بنا کر بھیجا گیا۔ ‘‘ ایک اور حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا : (( أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلاَّ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ۔))( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب غزوة تبوك، حدیث: ۴۴۱۶۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، حدیث:۲۴۰۴ واللفظ له۔) ’’ اے علی رضی اللہ عنہ ! تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جوہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی، مگر اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ اس ضمن میں اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ ہم نے صرف بخاری ومسلم کی چند احادیث ذکر کرنے پراکتفا کیا ہے۔
تخریج : مذکورہ بالا روایت پہلے بھی گذرچکی ہے۔ تخریج و تفصیل کے لیے پہلے باب کی حدیث نمبر: ۷ ملاحظہ فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء والرسل ہیں : اس روایت میں ذکر ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی نبی نہیں آئے گا۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿مَاکَانَ مُحَّمدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ﴾[الأحزاب:۴۰] ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔ ‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ﴿قُلْ یٰٓأَیُّهَا النَّاسُ إِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا﴾[الأعراف:۱۵۸] ’’ کہہ دیجیے: اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ اور بھی بہت سی آیات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہو نے کا ثبوت ملتا ہے۔ احادیث بھی اس موضوع پر بہت زیادہ ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میری مثال اور پہلے انبیاء کی مثال ایک محل کی طرح ہے، جس کو بہت اچھی طرح بنایا گیا۔ مگر اس سے ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی، تو دیکھنے والے جب اس کے پاس آتے ہیں تو اس کی خوبصورتی سے خوش ہوتے ہیں۔ مگر یہ ایک اینٹ کی جگہ (اس کی خوبصورتی کو داغدار کرتی تھی) تو یہ جگہ میں نے پُر کردی اور یہ عمارت مجھ سے مکمل کردی گئی۔ اور رسول محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر ختم کر دیے گئے۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، حدیث:۳۵۳۴۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونه صلى الله علیه وسلم خاتم النبیین، حدیث:۲۲۸۷ واللفظ له۔) ایک روایت میں ہے کہ ’’ یہ اینٹ میں ہی ہوں اور میں ہی رسولوں (کے سلسلے) کو ختم کرنے والا ہوں۔ ‘‘ (صحیح بخاري، کتاب المناقب باب خاتم النبیین، حدیث:۳۵۳۵۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونه صلى الله علیه وسلم خاتم النبیین، حدیث:۲۲؍۲۲۸۷۔) اسی طرح صحیح بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث ہے کہ: (( کَانَتْ بَنُوْا إِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِیَاءُ کُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَّفَهُ نَبِیٌّ وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ۔))( صحیح بخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بني اسرائیل، حدیث:۳۴۵۵۔ صحیح مسلم، کتاب الأمارة، باب وجوب الوفاء ببیعة الخلیفة، حدیث:۱۸۴۲۔) ’’ بنی اسرئیل کا نظمِ ملکی انبیاء چلاتے تھے، جب بھی کوئی نبی فوت ہوتاتو اس کی جگہ پر دوسرا نبی آجاتا، لیکن میرے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں ہوگا، اس لیے خلفاء ہوں گے اور بہت زیادہ ہوں گے۔ ‘‘ صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ أُعْطِیْتُ جَوَامِعُ الْکَلَمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُوْرًا وَأُرْسِلَتْ إِلَی النَّاسِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ الْنَّبِیُّوْنَ۔))( صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد ومواضع الصلاة، حدیث:۶؍۵۲۳۔) ’’ مجھے دوسرے تمام انبیاء پر چھ چیزوں سے فضیلت دی گئی ہے، مجھے جامع کلمات (ایسے کلمات جن کے الفاظ تھوڑے ہوں اور ان کا مفہوم بہت زیادہ ہو۔ ) عطا کیے گئے۔ اور مجھے رعب اور دبدبے کے ذریعے مدد ی گئی ( کہ میں دشمن سے ایک مہینے کی مسافت پر ہو تا ہوں تو اللہ تعالیٰ میرا رعب اور دبدبہ دشمن کے دل میں ڈال دیتا ہے ) اور میرے لیے غنیمتیں حلال کر دی گئیں، ( جبکہ مجھ سے پہلے انبیاء کے ادوار میں ایسا تھا کہ مال غنیمت اکٹھا کر کے کسی اونچی جگہ یا وسیع جگہ رکھ دیا جاتا، اور آگ اسے کھا جاتی اگر اس میں کوئی غلول ہوتا تو آگ نہ کھاتی ) اور میرے لیے پوری زمین سجدہ گاہ بنا دی گئی اورپاک کرنے والی بنا دی گئی، اور مجھے کائنات کے تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا، اور مجھے خاتم النّبیین بنا کر بھیجا گیا۔ ‘‘ ایک اور حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا : (( أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلاَّ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ۔))( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب غزوة تبوك، حدیث: ۴۴۱۶۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، حدیث:۲۴۰۴ واللفظ له۔) ’’ اے علی رضی اللہ عنہ ! تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جوہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی، مگر اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ اس ضمن میں اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ ہم نے صرف بخاری ومسلم کی چند احادیث ذکر کرنے پراکتفا کیا ہے۔