كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ الطَّعَامِ وَبَعْدَمَا يَفْرُغُ مِنْهُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رُفِعَتِ الْمَائِدَةُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ يَقُولُ: ((الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ مُودَعٍ وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانا کھانے سے پہلے اور بعد کی دعائیں
’’سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے جب دستر خوان اٹھایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے ’’أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْهِ غَیْرَ مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًی عَنْهُ رَبَّنَا‘‘ ’’کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں بہت زیادہ تعریفیں، پاکیزہ اور برکت والی ! اے اللہ ! ہمارے رب ! نہ ہم اسے چھوڑ سکتے ہیں نہ اس سے مستغنی ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
تشریح :
٭ جب دستر خوان اٹھالیا جائے تو مذکورہ دعا پڑھی جائے، حدیث کے سباق سے معلوم ہو تا ہے کہ دعا اونچی آواز میں پڑھی گئی تھی اس لیے تو راوی نے سنی، اس بارے میں ادب یہ ہے کہ جب تک دوسرے شرکا ء طعام فارغ نہ ہوجائیں، اونچی آواز سے دعا نہ پڑھی جائے۔
٭ أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ حَمْدًا میں حَمْدًا مفعول مطلق ہے۔ کَثِیْرًا یعنی اس کی حمد کی کوئی انتہا نہیں جیساکہ اس کی نعمتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ طَیِّباً: ریا، سمعہ اور ہر عیب سے پاک رَبُّنَا اس لفظ پر تینوں اعراب درست ہیں۔
۱: رَبُّنَا علی تقدیر هو ربُّنا یا انت ربُّنا یا اس بنا ء پر کہ یہ مبتداء ہے اور اس کی خبر مقدم ہے۔
۲: رَبَّنَا دراصل یا ربَّنَا منا دی ہے اس لیے منصوب پڑھا جاتا ہے۔ حرف ندا یا حذف کیا گیا ہے۔
۳: رَبِّنَا : جر کے ساتھ پڑھا جاتا ہے کیونکہ لفظ اللہ سے بدل ہے جو کہ دعا کی ابتدا ء میں ہے اور لام جارہ کی وجہ سے مجرور ہے۔
صحیح بخاری کی اس روایت میں غَیْرَ مَكِْفِیٍّ کا اضافہ بھی ہے یعنی أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْهِ غَیْرَ مَکْفِیٍّ وََلَا مُوَدَّعٍ وَّلَا مُسْتَغْنًی عَنْهُ رَبُّنَا۔
غَیْرَ مَکْفِیٍّ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کی ضرورت نہیں جو اس کی مخلوق کی کوئی ضرورت پوری کرے کیونکہ وہ خود کھلاتا ہے اور کھاتا نہیں، اور کافی ہوتا ہے اس سے کوئی کفایت نہیں کرتا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے بعد یہ دعا بھی مروی ہے :
’’أَللَّهُمَّ أَطْعَمْتَ وَسَقَیْتَ وَ أَغْنَیْتَ وَأَقْضَیْتَ وَهَدَیْتَ وَأَحْیَیْتَ فَلَكَ الْحَمْدُ عَلیٰ مَا أَعْطَیْتَ۔‘‘( مسند أحمد (۴؍۶۲)۔ عمل الیوم واللیلة لابن السني(۴۶۴)۔)
’’اے میرے اللہ تو نے مجھے کھلایا، اور تو نے مجھے پلایا اور تو نے ہی مجھے غنی کیا اور تو نے ہی مجھے سیراب کیا، اور تو نے ہی ہدایت دی، اور تو ہی رہنمائی کرتا ہے، اور تو ہی زندگی بخشتا ہے اس لیے تمام تعریفیں بھی تیرے لیے ہیں تو نے ہی یہ سب کچھ عطا کیا ہے۔ ‘‘
٭ صحیح مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کے پاس بھی کھانا کھانے کے لیے جاتے تو کھانے سے فراغت کے بعد ان کے لیے دعا کیے بغیر واپس تشریف نہ لاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کے گھریہ دعا کی:
’’أَللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِیْمَا رَزَ قْتَهُمْ وَاغْفِرْلَهُمْ وَارْحَمْهُمْ۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب استحباب وضع النوی خارج التمر، حدیث:۲۰۴۲۔)
’’اے اللہ ! تو نے جو کچھ انہیں عنایت فرمایاہے اس میں ان کے لیے برکت فرما، اور ان کو بخشش عطا فرما اور ان پر رحم فرما۔ ‘‘
٭ سنن ابی داؤد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے گھر میں یہ دعا کی تھی:
’’أَفْطَرَ عِنْدَکُمْ الصَّائِمُوْ نَ وَأَکَلَ طَعَامَکُمُ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلَائِکَةُ۔‘‘( سنن أبي داود، کتاب الأطعمة، باب فی الدعاء لرب الطعام إذا أکل عندہ، حدیث:۳۸۵۴۔)
’’؟تمہارے ہاں روزہ داروں نے افطاری کی، اور تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا، (جس کی وجہ سے) فرشتوں نے تمہارے لیے دعا کی۔‘‘
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب مایقول إذا فرغ من طعام (۹؍۵۴۵۸)، سنن ترمذي، أبواب الدعوات (۵؍۳۵۶)، سنن أبي داود،کتاب الأطعمة (۳؍۳۸۴۹)، سنن ابن ماجة (۲؍۳۲۸۴)، عمل الیوم واللیلة للنسائي ( ص : ۲۶۳)، شرح السنة للبغوي (۶؍۲۸۲۲)، مسند أحمد بن حنبل (۵؍۲۵۲، ۲۵۶،۲۶۱،۲۶۷)۔
٭ جب دستر خوان اٹھالیا جائے تو مذکورہ دعا پڑھی جائے، حدیث کے سباق سے معلوم ہو تا ہے کہ دعا اونچی آواز میں پڑھی گئی تھی اس لیے تو راوی نے سنی، اس بارے میں ادب یہ ہے کہ جب تک دوسرے شرکا ء طعام فارغ نہ ہوجائیں، اونچی آواز سے دعا نہ پڑھی جائے۔
٭ أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ حَمْدًا میں حَمْدًا مفعول مطلق ہے۔ کَثِیْرًا یعنی اس کی حمد کی کوئی انتہا نہیں جیساکہ اس کی نعمتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ طَیِّباً: ریا، سمعہ اور ہر عیب سے پاک رَبُّنَا اس لفظ پر تینوں اعراب درست ہیں۔
۱: رَبُّنَا علی تقدیر هو ربُّنا یا انت ربُّنا یا اس بنا ء پر کہ یہ مبتداء ہے اور اس کی خبر مقدم ہے۔
۲: رَبَّنَا دراصل یا ربَّنَا منا دی ہے اس لیے منصوب پڑھا جاتا ہے۔ حرف ندا یا حذف کیا گیا ہے۔
۳: رَبِّنَا : جر کے ساتھ پڑھا جاتا ہے کیونکہ لفظ اللہ سے بدل ہے جو کہ دعا کی ابتدا ء میں ہے اور لام جارہ کی وجہ سے مجرور ہے۔
صحیح بخاری کی اس روایت میں غَیْرَ مَكِْفِیٍّ کا اضافہ بھی ہے یعنی أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْهِ غَیْرَ مَکْفِیٍّ وََلَا مُوَدَّعٍ وَّلَا مُسْتَغْنًی عَنْهُ رَبُّنَا۔
غَیْرَ مَکْفِیٍّ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کی ضرورت نہیں جو اس کی مخلوق کی کوئی ضرورت پوری کرے کیونکہ وہ خود کھلاتا ہے اور کھاتا نہیں، اور کافی ہوتا ہے اس سے کوئی کفایت نہیں کرتا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے بعد یہ دعا بھی مروی ہے :
’’أَللَّهُمَّ أَطْعَمْتَ وَسَقَیْتَ وَ أَغْنَیْتَ وَأَقْضَیْتَ وَهَدَیْتَ وَأَحْیَیْتَ فَلَكَ الْحَمْدُ عَلیٰ مَا أَعْطَیْتَ۔‘‘( مسند أحمد (۴؍۶۲)۔ عمل الیوم واللیلة لابن السني(۴۶۴)۔)
’’اے میرے اللہ تو نے مجھے کھلایا، اور تو نے مجھے پلایا اور تو نے ہی مجھے غنی کیا اور تو نے ہی مجھے سیراب کیا، اور تو نے ہی ہدایت دی، اور تو ہی رہنمائی کرتا ہے، اور تو ہی زندگی بخشتا ہے اس لیے تمام تعریفیں بھی تیرے لیے ہیں تو نے ہی یہ سب کچھ عطا کیا ہے۔ ‘‘
٭ صحیح مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کے پاس بھی کھانا کھانے کے لیے جاتے تو کھانے سے فراغت کے بعد ان کے لیے دعا کیے بغیر واپس تشریف نہ لاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کے گھریہ دعا کی:
’’أَللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِیْمَا رَزَ قْتَهُمْ وَاغْفِرْلَهُمْ وَارْحَمْهُمْ۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب استحباب وضع النوی خارج التمر، حدیث:۲۰۴۲۔)
’’اے اللہ ! تو نے جو کچھ انہیں عنایت فرمایاہے اس میں ان کے لیے برکت فرما، اور ان کو بخشش عطا فرما اور ان پر رحم فرما۔ ‘‘
٭ سنن ابی داؤد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے گھر میں یہ دعا کی تھی:
’’أَفْطَرَ عِنْدَکُمْ الصَّائِمُوْ نَ وَأَکَلَ طَعَامَکُمُ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلَائِکَةُ۔‘‘( سنن أبي داود، کتاب الأطعمة، باب فی الدعاء لرب الطعام إذا أکل عندہ، حدیث:۳۸۵۴۔)
’’؟تمہارے ہاں روزہ داروں نے افطاری کی، اور تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا، (جس کی وجہ سے) فرشتوں نے تمہارے لیے دعا کی۔‘‘