شمائل ترمذی - حدیث 186

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ الطَّعَامِ وَبَعْدَمَا يَفْرُغُ مِنْهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ طَعَامٌ فَقَالَ: ((ادْنُ يَا بُنَيَّ فَسَمِّ اللَّهَ تَعَالَى وَكُلْ بِيَمِينِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 186

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانا کھانے سے پہلے اور بعد کی دعائیں ’’سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانا رکھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے میرے بچے ! قریب آجا، بسم اللہ پڑھ، اور اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے سامنے سے کھاؤ۔‘‘
تشریح : بسم اللہ بالجہر کہے یا سِرًّا ٭ حدیث الباب میں لفظ ِ یَا بُنَيَّ ’’اے میرے بچے‘‘ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز تخاطب کا پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر تلطف اور مہربانی سے بچوں کو بلاتے، یہ انداز معلمِ اخلاق صلی اللہ علیہ وسلم کو زیب تھا جس کی پیروی کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بسم اللہ بالجہر کہنا مستحب ہے، تا کہ پاس والے لوگ سن لیں۔ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ بسم اللہ کہہ لے یا اس کے ساتھ الرحمن الرحیم کا اضافہ کر لے یا اپنی لغت میں کہہ لے کہ میں اللہ کے نام سے آغاز کرتا ہوں، جائز ہے۔ دائیں ہاتھ سے کھانا: ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا تناول کرنا، بقول بعض علماء واجب ہے اور اقرب الی الدلیل بھی یہی ہے کیونکہ دائیں ہاتھ سے نہ کھانے پر وعید ہے جیسا کہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھارہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ارشاد فرمایا : ’’دائیں ہاتھ سے کھاؤ‘‘ اس نے کہا: میں دائیں سے نہیں کھاسکتا۔ ارشاد فرمایا: ’’تو دائیں سے کھانے کی طاقت نہ ہی رکھ سکے تو اس کے بعد وہ اپنا دایاں ہاتھ کبھی بھی او پر نہ اٹھاسکا۔( صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب آداب الطعام والشراب، حدیث:۲۰۲۱۔) معجم طبرانی میں ضعیف سند کے ساتھ مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیعه اسلمیه کو دیکھا کہ وہ بائیں ہاتھ سے کھا رہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے بد دعا کی تو اس کو طاعون کی بیماری لگ گئی جس سے وہ مر گئی۔( معجم کبیر طبراني(۱۴۳۱۱، ۱۴۳۰۲)۔) سنن ابن ماجة میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ، کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب آداب الطعام والشراب، حدیث:۲۰۱۹۔ سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة، باب الأکل بالیمین، حدیث:۳۲۶۸۔)حسن بن سفیان نے سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے اپنی مسند میں بیان کیا ہے کہ ’’جب کوئی کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے، پیئے تو دائیں ہاتھ سے پیئے، اور اگر کوئی چیز کسی کو دے تو دائیں ہاتھ سے دے، کسی سے کوئی چیز لے تو دائیں ہاتھ سے لے، کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا، پیتا، دیتا، اور لیتا ہے۔ ‘‘(سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة، باب الأکل بالیمین، حدیث:۳۲۶۶۔ صحیح مسلم، کتاب الاشربة، باب آداب الطعام والشراب، حدیث:۱۰۶؍۲۰۲۰۔ عن ابن عمر رضي الله عنهما ۔) اپنے آگے سے کھانا اور اس کے احکام: ٭ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْكَ : اپنے قریب سے سامنے سے کھاؤ، بعض علماء نے اس امر کو وجوب پر محمول کیا ہے کیونکہ اس طرح نہ کرنے سے دوسرے لوگوں کو تکلیف کا اندیشہ ہے نیز اس سے بہت زیادہ لالچ کا اظہار ہوتا ہے۔ بعض دوسرے علماء نے اس کو استحباب پر محمول کیا ہے کیونکہ نص سے اس پر وعید ثابت نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور امام سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امام شافعی رحمہ اللہ نے الرسالتہ اور کتاب الام میں کہا ہے کہ ثرید کے اوپر سے لینا اور دودولقمے یا دو دو کھجوریں اکٹھی ملا کر کھانا جائز نہیں، ہاں جب ساتھ کھانے والا اس کو ناپسند نہ سمجھے تو درست ہے اسی طرح کھانے یاسالن سے کچھ تلاش کرنا جبکہ ساتھ کھانے والے اسے ناپسند نہ کریں تو درست ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ سالن سے کدّو تلاش کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر تے تھے(صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب من ناول أو قدم إلی صاحبه...، حدیث:۵۴۳۹۔ صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب جواز أکل المرق...، حدیث:۱۴۵؍۲۰۴۱۔) اسی طرح اگر انواع واقسام پر مشتمل کھانا یا سالن ہو تو پوری پلیٹ یابڑے برتن میں ہاتھ بڑھایا جاسکتا ہے مثلاً ایک سالن میں گوشت، آلو یا کدو وغیرہ اکٹھے پکائیں جائیں تو اپنے قریب کے بجائے دوسری اطراف سے بھی لیا جاسکتا ہے اور اپنی پسند کی چیز کو تلاش کیا جاسکتا ہے اگرچہ عمومی طور پر اس کو لالچ پر اور ایثار کے فقدان پر محمول کیا جاتا ہے۔
تخریج : صحیح بخاری،کتاب الأطعمة، باب التسمیة علی الطعام والأ کل بالیمین (۹؍ ۵۳۷۶)، مسلم، کتاب الأشربة، آداب الطعام والشراب (۳؍۱۰۸، برقم ۵۹۹)، سنن ترمذي، ابواب الأطعمة (۴؍۱۸۵۷)، سنن أبي داود،کتاب الأطعمة (۳؍۳۷۷۷)، سنن ابن ماجة،کتاب الأطعمة (۲؍ ۳۲۶۷)، سنن الکبرٰی للنسائی (۴؍۱۷۴)، سنن دارمي، کتاب الأطعمة (۲؍۲۰۱۹) السنن الکبرٰی للبیهقي (۷؍۲۷۷)، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۲۶)۔ بسم اللہ بالجہر کہے یا سِرًّا ٭ حدیث الباب میں لفظ ِ یَا بُنَيَّ ’’اے میرے بچے‘‘ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز تخاطب کا پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر تلطف اور مہربانی سے بچوں کو بلاتے، یہ انداز معلمِ اخلاق صلی اللہ علیہ وسلم کو زیب تھا جس کی پیروی کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بسم اللہ بالجہر کہنا مستحب ہے، تا کہ پاس والے لوگ سن لیں۔ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ بسم اللہ کہہ لے یا اس کے ساتھ الرحمن الرحیم کا اضافہ کر لے یا اپنی لغت میں کہہ لے کہ میں اللہ کے نام سے آغاز کرتا ہوں، جائز ہے۔ دائیں ہاتھ سے کھانا: ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا تناول کرنا، بقول بعض علماء واجب ہے اور اقرب الی الدلیل بھی یہی ہے کیونکہ دائیں ہاتھ سے نہ کھانے پر وعید ہے جیسا کہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھارہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ارشاد فرمایا : ’’دائیں ہاتھ سے کھاؤ‘‘ اس نے کہا: میں دائیں سے نہیں کھاسکتا۔ ارشاد فرمایا: ’’تو دائیں سے کھانے کی طاقت نہ ہی رکھ سکے تو اس کے بعد وہ اپنا دایاں ہاتھ کبھی بھی او پر نہ اٹھاسکا۔( صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب آداب الطعام والشراب، حدیث:۲۰۲۱۔) معجم طبرانی میں ضعیف سند کے ساتھ مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیعه اسلمیه کو دیکھا کہ وہ بائیں ہاتھ سے کھا رہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے بد دعا کی تو اس کو طاعون کی بیماری لگ گئی جس سے وہ مر گئی۔( معجم کبیر طبراني(۱۴۳۱۱، ۱۴۳۰۲)۔) سنن ابن ماجة میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ، کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب آداب الطعام والشراب، حدیث:۲۰۱۹۔ سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة، باب الأکل بالیمین، حدیث:۳۲۶۸۔)حسن بن سفیان نے سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے اپنی مسند میں بیان کیا ہے کہ ’’جب کوئی کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے، پیئے تو دائیں ہاتھ سے پیئے، اور اگر کوئی چیز کسی کو دے تو دائیں ہاتھ سے دے، کسی سے کوئی چیز لے تو دائیں ہاتھ سے لے، کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا، پیتا، دیتا، اور لیتا ہے۔ ‘‘(سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة، باب الأکل بالیمین، حدیث:۳۲۶۶۔ صحیح مسلم، کتاب الاشربة، باب آداب الطعام والشراب، حدیث:۱۰۶؍۲۰۲۰۔ عن ابن عمر رضي الله عنهما ۔) اپنے آگے سے کھانا اور اس کے احکام: ٭ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْكَ : اپنے قریب سے سامنے سے کھاؤ، بعض علماء نے اس امر کو وجوب پر محمول کیا ہے کیونکہ اس طرح نہ کرنے سے دوسرے لوگوں کو تکلیف کا اندیشہ ہے نیز اس سے بہت زیادہ لالچ کا اظہار ہوتا ہے۔ بعض دوسرے علماء نے اس کو استحباب پر محمول کیا ہے کیونکہ نص سے اس پر وعید ثابت نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور امام سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امام شافعی رحمہ اللہ نے الرسالتہ اور کتاب الام میں کہا ہے کہ ثرید کے اوپر سے لینا اور دودولقمے یا دو دو کھجوریں اکٹھی ملا کر کھانا جائز نہیں، ہاں جب ساتھ کھانے والا اس کو ناپسند نہ سمجھے تو درست ہے اسی طرح کھانے یاسالن سے کچھ تلاش کرنا جبکہ ساتھ کھانے والے اسے ناپسند نہ کریں تو درست ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ سالن سے کدّو تلاش کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر تے تھے(صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب من ناول أو قدم إلی صاحبه...، حدیث:۵۴۳۹۔ صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب جواز أکل المرق...، حدیث:۱۴۵؍۲۰۴۱۔) اسی طرح اگر انواع واقسام پر مشتمل کھانا یا سالن ہو تو پوری پلیٹ یابڑے برتن میں ہاتھ بڑھایا جاسکتا ہے مثلاً ایک سالن میں گوشت، آلو یا کدو وغیرہ اکٹھے پکائیں جائیں تو اپنے قریب کے بجائے دوسری اطراف سے بھی لیا جاسکتا ہے اور اپنی پسند کی چیز کو تلاش کیا جاسکتا ہے اگرچہ عمومی طور پر اس کو لالچ پر اور ایثار کے فقدان پر محمول کیا جاتا ہے۔