شمائل ترمذی - حدیث 184

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ الطَّعَامِ وَبَعْدَمَا يَفْرُغُ مِنْهُ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ جَنْدَلٍ الْيَافِعِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَرَّبَ طَعَامًا، فَلَمْ أَرَ طَعَامًا كَانَ أَعْظَمَ بَرَكَةً مِنْهُ، أَوَّلَ مَا أَكَلْنَا، وَلَا أَقَلَّ بَرَكَةً فِي آخِرِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ هَذَا؟ قَالَ: ((إِنَّا ذَكَرْنَا اسْمَ اللَّهِ حِينَ أَكَلْنَا، ثُمَّ قَعَدَ مَنْ أَكَلَ وَلَمْ يُسَمِّ اللَّهَ تَعَالَى فَأَكَلَ مَعَهُ الشَّيْطَانُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 184

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانا کھانے سے پہلے اور بعد کی دعائیں ’’سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کھانا پیش کیا گیا۔ کھانے کے آغاز میں جو برکت تھی ازروئے برکت کے ایسا کھانا میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا، اور اسی کھانے کے آخر میں جو بے برکتی تھی وہ بھی میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی، ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیا کیفیت ہے ؟ ارشاد فرمایا: جس وقت ہم نے کھانا شروع کیا تھا تو ہم نے اللہ تعالیٰ کا اسمِ مبارک لیا تھا، پھر ایک شخص کھانے کے لیے بیٹھا اور اس نے اللہ تعالیٰ کا اسمِ پاک نہیں لیا، پس اس شخص کے ساتھ شیطان نے بھی کھانا کھایا۔‘‘
تشریح : ٭ حدیث الباب سے ثابت ہو تا ہے کہ صرف اللہ کا نام لینے سے اور صرف ’’بسم اللہ‘‘ کہنے سے سنت اداہو جاتی ہے، مگر جب ’’الرحمن الرحیم‘‘ بھی ساتھ شامل کر لیں تو یہ اس کی تکمیل ہو جائے گی۔ امام غزالی اور نووی رحمہ اللہ نے یہی کہا ہے۔ بعض محدثین کہتے ہیں کہ ’’بسم الله‘‘ سے زائد کے افضل ہو نے کی کوئی خاص دلیل موجود نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’حرام اور مکروہ کام کے آغاز میں ’’بسم الله‘‘ نہیں کہنی چاہیے بلکہ اگرخمر (شراب ) پر اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کو پیاتو کافر ہو جائے گا یہ مسئلہ اپنی جگہ تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔ ‘‘ ٭ ’’شیطان کھانے لگا‘‘ جس شخص نے بغیر بسم اللہ کہے کھانا شروع کیا، اس کے ساتھ شیطان بیٹھ گیا اور برکت اٹھ گئی۔ یعنی شیطان کے ساتھ شامل ہونے کی وجہ سے برکت ختم ہوگئی۔ شیطان کا کھانا کھانا، اپنی حقیقت پر محمول ہے تمام علماء سلف وخلف نے یہی کہا ہے کیونکہ یہ بات شرعا اور عقلاً بھی ممکن ہے۔ ٭ امام طیبی رحمہ اللہ نے نووی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا :اگر ایک جماعت اکٹھے کھانے کھارہی ہو تو صرف ایک آدمی کا بسم اللہ کہہ دنیا ہی سب کے لیے کافی ہے، تو اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ وہ شخص ہماری فراغت کے وقت آیا۔ اس لیے ساتھ شیطان بھی کھانے لگا۔ مگر یہ تاویل بعید ہے کیونکہ حدیث سے شمولیت میں تراخی ثابت ہو تی ہے نہ کہ فراغت، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شیطان چونکہ اس کے ساتھ آیااور کھانے لگا، اس لیے ہماری بسم اللہ اس پر کوئی اثر نہ ڈال سکی، یہ تاویل درست ہوسکتی ہے۔ لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کی طرف سے ایک آدمی کی بسم اللہ تب کافی ہو سکتی ہے جب وہ سب اکٹھے شروع کریں۔
تخریج : یہ حدیث ضعیف ہے۔ مسند أحمد بن حنبل (۵؍۴۱۵،۴۱۶)،شرح السنة للبغوی (۶؍۲۸۱۸)، اس روایت کی سند میں ابن لھیعۃ راوی سیئی الحفظ اور مختلط ہے، اور دوراوی غیر معروف ہیں۔ امام ھیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو مجمع الزوائد (۵؍۲۳۱) میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کو امام احمد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے لیکن ان کی سند میں راشد بن جندل اور حبیب بن اوس ہیں وکلاهما واحد، وبقیة إسناده صحیح خلا ابن لهیعة۔ ٭ حدیث الباب سے ثابت ہو تا ہے کہ صرف اللہ کا نام لینے سے اور صرف ’’بسم اللہ‘‘ کہنے سے سنت اداہو جاتی ہے، مگر جب ’’الرحمن الرحیم‘‘ بھی ساتھ شامل کر لیں تو یہ اس کی تکمیل ہو جائے گی۔ امام غزالی اور نووی رحمہ اللہ نے یہی کہا ہے۔ بعض محدثین کہتے ہیں کہ ’’بسم الله‘‘ سے زائد کے افضل ہو نے کی کوئی خاص دلیل موجود نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’حرام اور مکروہ کام کے آغاز میں ’’بسم الله‘‘ نہیں کہنی چاہیے بلکہ اگرخمر (شراب ) پر اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کو پیاتو کافر ہو جائے گا یہ مسئلہ اپنی جگہ تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔ ‘‘ ٭ ’’شیطان کھانے لگا‘‘ جس شخص نے بغیر بسم اللہ کہے کھانا شروع کیا، اس کے ساتھ شیطان بیٹھ گیا اور برکت اٹھ گئی۔ یعنی شیطان کے ساتھ شامل ہونے کی وجہ سے برکت ختم ہوگئی۔ شیطان کا کھانا کھانا، اپنی حقیقت پر محمول ہے تمام علماء سلف وخلف نے یہی کہا ہے کیونکہ یہ بات شرعا اور عقلاً بھی ممکن ہے۔ ٭ امام طیبی رحمہ اللہ نے نووی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا :اگر ایک جماعت اکٹھے کھانے کھارہی ہو تو صرف ایک آدمی کا بسم اللہ کہہ دنیا ہی سب کے لیے کافی ہے، تو اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ وہ شخص ہماری فراغت کے وقت آیا۔ اس لیے ساتھ شیطان بھی کھانے لگا۔ مگر یہ تاویل بعید ہے کیونکہ حدیث سے شمولیت میں تراخی ثابت ہو تی ہے نہ کہ فراغت، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شیطان چونکہ اس کے ساتھ آیااور کھانے لگا، اس لیے ہماری بسم اللہ اس پر کوئی اثر نہ ڈال سکی، یہ تاویل درست ہوسکتی ہے۔ لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کی طرف سے ایک آدمی کی بسم اللہ تب کافی ہو سکتی ہے جب وہ سب اکٹھے شروع کریں۔