كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الطَّعَامِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ،حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، (ح) وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَرِيمِ الْجُرْجَانِيُّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ أَنَّ بَرَكَةَ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ بَعْدَهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((بَرَكَةُ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ قَبْلَهُ وَالْوُضُوءُ بَعْدَهُ)) لَا نَعْرِفُ هٰذَا الْحَدِیْثَ إِلَّامِنْ حَدِْیثِ قَیْسِ بَنِ الرَّبِیْعِ وَقَیْسٌ یُضَعَّفُ فِی الْحَدِیْثِ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کے وقت وضوء کے طریقے کابیان
’’سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : میں نے توراۃ میں پڑھا کہ کھانا کھانے کے بعد وضوء کرنا (اصطلاحی وضوء مرا د نہیں بلکہ ہاتھ دھونا اور کلی کرنا مرا د ہے) برکت کا سبب ہے یہ بات میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ضوء کرنا برکت کا باعث ہے۔ ‘‘امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہ حدیث صر ف قیس بن ربیع کے طریق سے پہچانی جاتی ہے اور وہ حدیث میں ضعیف ہے۔
تشریح :
اس روایت میں کھانے سے پہلے اور بعد میں لغوی وضوء کرنے میں برکت کا ذکر کیا گیا ہے۔ تورات میں بقول سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کھانے کے بعد وضوء کا تذکرہ تھا جبکہ ہماری شریعت میں ایک زائد چیز یعنی کھانے سے پہلے بھی وضوء کرنا یعنی ہاتھ دھونا اور کلی کرنا وارد ہے۔
کھانے کے بعد ہاتھ دھونے سے اور کلی کرنے میں بڑی حکمت ہے اس سے ہاتھوں اور منہ میں لگی ہوئی چکناہٹ اور دسومت صاف ہو جاتی ہے۔ سنن ترمذي، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجة کی ایک صحیح حدیث میں مروی ہے کہ ’’جو شخص اس حال میں رات گزارے کہ اس کے ہاتھوں میں چکنائی وغیرہ ہو تو وہ صرف اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الأطعمة، باب في غسل الید من الطعام، حدیث:۳۸۵۲۔ سنن ترمذي (۱۸۶۰)۔ سنن ابن ماجة (۳۲۹۷)۔) یعنی اس کے ہاتھوں کو کسی موذی چیز نے کاٹ لیا تو یہ اس کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہو گا۔کھانے سے پہلے ہاتھ اور منہ دھونے سے برکت اس طرح ہو گی کہ کھانا بڑھ جائے گا اور بعد میں برکت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے فوائد واثرات اچھے مرتب ہو نگے۔ مثلا دل کو سکون و اطمینان میسر آئے گا، طاعات کی طرف میلان ہو گا، عبادات واخلاق فاضلہ اور افعال عالیہ مزید تقویت پائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
بَابَ مَا جَاءَ فيْ صِفَةِ وُضُوْءِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله علیه وسلم عِنْدَ الطَّعَامِ مکمل ہوا۔
والحمد للّٰه علی ذالك
تخریج :
یہ حدیث ضعیف ہے۔ سنن أبي داؤد،کتاب الأطعمة، باب في غسل الید ین قبل الطعام (۳؍۳۷۶۱)، سنن ترمذي، أبواب الأطعمة (۴،۱۸۴۶)۔مستدرك حاکم (۴؍۱۰۶،۱۰۷)، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۴۴۱)، مسند أبي داود طیالسي (ص: ۹۱)، شرح السنة للبغوي (۶؍۲۸۲۷) قال الحاکم ’’تفرد به قَیْس بن الربیع عن أبي هاشم وإنفراد علی علومحله أکثر من أن یمکن ترکه فی هذا الباب‘‘ وقال الذهبی: ’’مع ضعف قیس فیه إرسال۔‘‘ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں قیس بن ربیع اس حدیث کو ابوھاشم سے بیان کرنے میں متفرد ہیں اور ان کا عالی سند کے باوجود متفرد ہو نا اس مسئلہ میں ان کی روایت کو چھوڑنے کا امکان پیدا کرتا ہے، امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قیس کے ضعیف ہو نے کے ساتھ ساتھ اس سند میں دوسری خرابی ارسال بھی ہے۔
اس روایت میں کھانے سے پہلے اور بعد میں لغوی وضوء کرنے میں برکت کا ذکر کیا گیا ہے۔ تورات میں بقول سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کھانے کے بعد وضوء کا تذکرہ تھا جبکہ ہماری شریعت میں ایک زائد چیز یعنی کھانے سے پہلے بھی وضوء کرنا یعنی ہاتھ دھونا اور کلی کرنا وارد ہے۔
کھانے کے بعد ہاتھ دھونے سے اور کلی کرنے میں بڑی حکمت ہے اس سے ہاتھوں اور منہ میں لگی ہوئی چکناہٹ اور دسومت صاف ہو جاتی ہے۔ سنن ترمذي، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجة کی ایک صحیح حدیث میں مروی ہے کہ ’’جو شخص اس حال میں رات گزارے کہ اس کے ہاتھوں میں چکنائی وغیرہ ہو تو وہ صرف اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الأطعمة، باب في غسل الید من الطعام، حدیث:۳۸۵۲۔ سنن ترمذي (۱۸۶۰)۔ سنن ابن ماجة (۳۲۹۷)۔) یعنی اس کے ہاتھوں کو کسی موذی چیز نے کاٹ لیا تو یہ اس کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہو گا۔کھانے سے پہلے ہاتھ اور منہ دھونے سے برکت اس طرح ہو گی کہ کھانا بڑھ جائے گا اور بعد میں برکت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے فوائد واثرات اچھے مرتب ہو نگے۔ مثلا دل کو سکون و اطمینان میسر آئے گا، طاعات کی طرف میلان ہو گا، عبادات واخلاق فاضلہ اور افعال عالیہ مزید تقویت پائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
بَابَ مَا جَاءَ فيْ صِفَةِ وُضُوْءِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله علیه وسلم عِنْدَ الطَّعَامِ مکمل ہوا۔
والحمد للّٰه علی ذالك