كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الطَّعَامِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ الطَّعَامُ فَقَالُوا: أَلَا نَأْتِيكَ بِوَضُوءٍ؟ قَالَ: ((إِنَّمَا أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ إِذَا قُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کے وقت وضوء کے طریقے کابیان
’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے (وہ فرماتے ہیں )کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا ء سے باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا پیش کیا گیا، اور صحابہ کرام عرض کرنے لگے : کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضوء کا پانی نہ لے آئیں ؟ (تا کہ آپ وضوء کر لیں )تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے وضوء کرنے کا حکم اس وقت دیا گیا ہے جب میں نماز کے لیے اٹھوں۔‘‘
تشریح :
اس مقام پر وُضوء سے مراد عام وضوء یعنی لغوی وضوء مراد ہے کہ کھانے کے بعد ہاتھ اور منہ دھونا یا کلی کرنا، نماز والا وضوء مراد نہیں ہے۔
تخریج :
صحیح مسلم،کتاب الحیض باب جواز أکل المحدث الطعام (۱؍۱۱۹ برقم ۲۸۳)، سنن ترمذي، أبواب الأطعمة (۴؍۱۸۴۷)، وقال حدیث حسن صحیح، سنن أبي داؤد،کتاب الأطعمة، باب فی غسل الیدین عند الطعام (۳؍۳۷۶) سنن نسائي، کتاب الطهارة (۱؍۱۳۲)۔
اس مقام پر وُضوء سے مراد عام وضوء یعنی لغوی وضوء مراد ہے کہ کھانے کے بعد ہاتھ اور منہ دھونا یا کلی کرنا، نماز والا وضوء مراد نہیں ہے۔