كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ: ((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعْجِبُهُ الثُّفْلُ)) قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: ((يَعْنِي مَا بَقِيَ مِنَ الطَّعَامِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں
’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی ماندہ (کھانا )بڑا پسند تھا۔ امام ترمذی کے شیخ عبداللہ بن عبدالرحمان فرماتے ہیں باقی ماندہ سے مراد کھانے سے جو بچا ہوا ہو۔ ‘‘
تشریح :
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر میں بچا ہوا کھانے زیادہ پسند تھا، اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ زیادہ پکا ہوا ہو تا ہے اس لیے وہ زیادہ زود ہضم اور لذیذ ہو تا ہے۔
٭ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع وانکساری کا اظہار بھی ہو تا ہے۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک ایثار کی تھی، اس لیے دوسرے ضرورت مند مہمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی کھانا دیتے جو ہنڈیا میں اوپر ہو، اور جو نیچے بچ جاتا، اُسے خود پسند فرماتے، یہ عمل ابعد من التکبر بھی ہے۔
بَابُ مَا جَاءَ فِيْ صِفَةِ اِدَامِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله علیه وسلم مکمل ہوا۔
والحمد للّٰه رب العالمین علی ذالك
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ مسند أحمد بن حنبل (۳؍۲۲۰)، مستدرك حاکم (۴؍۱۱۵،۱۱۶)، طبقات ابن سعد (۱؍۳۹۳)، شعب الأیمان (۶؍۵۹۲۴)۔
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر میں بچا ہوا کھانے زیادہ پسند تھا، اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ زیادہ پکا ہوا ہو تا ہے اس لیے وہ زیادہ زود ہضم اور لذیذ ہو تا ہے۔
٭ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع وانکساری کا اظہار بھی ہو تا ہے۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک ایثار کی تھی، اس لیے دوسرے ضرورت مند مہمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی کھانا دیتے جو ہنڈیا میں اوپر ہو، اور جو نیچے بچ جاتا، اُسے خود پسند فرماتے، یہ عمل ابعد من التکبر بھی ہے۔
بَابُ مَا جَاءَ فِيْ صِفَةِ اِدَامِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله علیه وسلم مکمل ہوا۔
والحمد للّٰه رب العالمین علی ذالك