كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَاتَمِ النُّبُوَّةِ حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ قَالَ: أَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ جَدَّتِهِ رُمَيْثَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أُقَبِّلَ الْخَاتَمَ الَّذِي بَيْنَ كَتِفَيْهِ مِنْ قُرْبِهِ لَفَعَلْتُ، يَقُولُ لِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ يَوْمَ مَاتَ: ((اهْتَزَّ لَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ))
کتاب
مہرِ نبوت کابیان
’’ سیدہ رمیثہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات اس وقت سنی جبکہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قدر قرب حاصل تھا کہ اگر میں چاہتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرِ نبوت جو دونوں کندھوں کے درمیان تھی کو چوم لیتی، اور وہ بات یہ تھی کہ جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی وفات پر اللہ تعالیٰ کا عرش حرکت کرنے لگا ہے۔ ‘‘
تشریح :
سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اللہ تعالیٰ کے عرش کا حرکت میں آنا۔ علمائے کرام نے اس کے مفہوم میں اختلاف کیا ہے۔
(۱) ایک قول تو حدیث کے ظاہر کے مطابق ہے کہ سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی روح کے آسمانوں پر جانے کے وقت حقیقتاً عرشِ الٰہی نے بطورِ اظہارِ فرحت وسرور کے حرکت کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بات کی تمیز و معرفت عطا فرمادی تا کہ وہ اس طرح اظہارِ خوشی کرسکے۔
(۲) دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس سے مراد عرش نہیں، بلکہ حاملین عرش ہیں اور حرکت سے مراد خوشی اور فرحت کا اظہار ہے۔
(۳) تیسرا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت ایک بہت بڑا حادثہ تھی، جس سے عرشِ الٰہی بھی متاثر ہوا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عرش کی حرکت کا ذکر دس یا اس سے بھی زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اس لیے صحیح بات یہی ہے جو روایت کے ظاھری الفاظ سے واضح ہورہی ہے۔ عرش کے علاوہ دیگر کئی ایسی چیزوں کا حرکت کرنا ثابت ہے جو عمومی طور پر حرکت نہیں کرتیں، یا ان میں وہ حِسّ نہیں ہوتی، جیسا کہ لکڑی کا وہ ستون جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت بایں طور حاصل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ اسی طرح اُحد پہاڑ، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم صدیق وفاروق اور عثمان ذوالنورین رضی الله عنہم کی آمد پر جھوم اٹھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: ((إِنَّ أُحُدًا نُحِبُّهُ وَیُحِبُّنَا)) (صحیح بخاري، کتاب الجهاد، باب فضل الخدمة فی الغزو، حدیث:۲۸۸۹۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینة، حدیث:۱۳۶۵۔ بلفظ ’’هذا جبل یحبنا ونحبه‘‘۔)’’ اُحد پہاڑ سے ہم محبت رکھتے ہیں اور اُحد پہاڑ بھی ہم سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے چونکہ بنو قریظہ کے یہود کے بارے میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ان کے جنگجو قتل کردیئے جائیں اور ان کی اولادوں اور عورتوں کو قیدی بنالیا جائے، اس لیے جب سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافق لوگ کہنے لگے: ’’ یہ جنازہ تو بہت ہلکا پھلکا ہے۔ ‘‘ اس سے ان کا مطلب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی توہین وتحقیر تھا کہ انہوں نے یہود کے بارے میں ظلم وزیادتی کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے جنازہ ہلکا ہے۔ حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا فیصلہ درست قرار دیا بلکہ فرمایا: یہی فیصلہ اللہ تعالیٰ کا بھی تھا۔ تو منافقین کی مذکورہ بات سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ان کے جنازے کا وزن لوگوں پر کم اس لیے ہے کہ ستر ہزار فرشتے ان کے جنازے میں شریک ہیں اور سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں کہ کون ان کے جنازے کو کندھا دیتا ہے۔‘‘ (سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب مناقب سعد بن معاذ رضي الله عنه، حدیث:۳۸۴۹ وقال ’’حسن صحیح غریب‘‘۔)اس طرح منافقوں کے استحقار کا ایسا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، جس سے سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی شان اور زیادہ بڑھ گئی۔
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے تذکار:
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر مسلمان ہوئے۔ جب مسلمان ہوئے تو اپنی قوم کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: اے بنی عبدالاشہل! اپنے متعلق تم مجھے کیسا جانتے ہو؟ تو وہ کہنے لگے: مرتبہ و مقام کے لحاظ سے تم ہمارے سر دار ہواور ہر طرح نگران اور محافظ ہو۔ تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سب مردوں اور عورتوں سمیت جب تک مسلمان نہیں ہوجاتے، اس وقت تک تم سے میرا بولنا حرام ہے۔ تو بنی عبدالاشہل قبیلے کا کوئی آدمی بھی ایسا نہ رہا جس نے اسلام نہ قبول کرلیا ہو، سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (سیرة ابن هشام (ص:۲۰۰۔۲۰۱)۔)
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمر ہ کی ادائیگی کے لیے مکہ معظمہ گئے تو وہاں امیہ بن خلف کے پاس ٹھہر ے کیونکہ امیہ بھی شام کو تجارت کے لیے جاتے ہوئے ان کے پاس ٹھہرا کرتا تھا۔ امیہ نے کہا: دوپہر ہو نے دو، لوگوں کی بے خبری میں طواف کعبہ کرلینا۔ چنانچہ دوپہر کے وقت سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ جب طواف کر رہے تھے تو ابوجہل آگیا اور کہنے لگا: یہ کون ہے جو امن و اطمینان سے طواف کر رہا ہے؟ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سعد ہوں۔ ابوجہل نے کہا: تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پناہ بھی دے رکھی ہے، پھر بھی نہایت امن سے طواف کر رہے ہو؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں ! ابوجہل نے تلخ کلامی سے کام لیا تو جواباً حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بھی سخت کلامی کی۔ امیہ بن خلف کہنے لگا: ابوالحکم پر آواز بلند نہ کرو، یہ اس وادی کے سردار ہیں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تو نے مجھے طواف سے روک دیا تو میں تیری شام کی تجارت کا راستہ بند کردوں گا۔ اُمیہ بار بار کہتا رہا کہ آواز بلند نہ کرو، یہاں تک کہ سعد رضی اللہ عنہ غصے ہوگئے اور فرمانے لگے: مجھے چھوڑ دو! میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، وہ فرماتے تھے کہ میں اُمیہ کو قتل کردوں گا۔ کہنے لگا: مجھے؟سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں ! تجھے۔ اُمیہ کہنے لگا: خدا کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جب بات کر یں تو جھوٹ نہیں کہتے۔ پھر اس نے جا کر اپنی بیوی سے بات کی کہ میرے یثربی بھائی نے (صلی اللہ علیہ وسلم) جھوٹ نہیں کہتے۔ پھر جب یہ بدر کی لڑائی میں جانے لگا تو اس کی بیوی نے اسے وہ بات یاد دلائی تو اس نے نہ جانے کا ارادہ کرلیا لیکن ابوجہل کہنے لگا: تم اس وادی کے سرداروں میں سے ہو، اس لیے ہمارے ساتھ دن، دو دن تو چلو، وہ نکل پڑا تواللہ تعالیٰ نے اس کو قتل کر دیا۔ (صحیح بخاري، کتاب علامات النبوۃ فی الإسلام، حدیث:۳۶۳۲۔)
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شریک ہوئے، جنگ خندق میں انہیں حبان بن العرقۃ نے ایک تیرا مارا جو ان کے بازو کی رگ میں جالگا، جس سے ان کا بہت سا خون بہہ گیا۔ انھیں وہاں پر داغ بھی دیا گیا مگر اس سے ان کا ہاتھ پھول گیا تو داغنا چھوڑ دیا، پھر دوبارہ داغ دیا تو پھر ہاتھ پھولنے لگا، جب انہوں نے یہ بات دیکھی تو دعا کی: ’’ اے میرے اللہ! جب تک بنو قریظہ کے متعلق میری آنکھوں کو ٹھنڈک نہ مل جائے، مجھے موت نہ دینا۔ ‘‘ ابھی دعا سے فارغ ہوئے تو خون رسنا بند ہوگیا۔ پھر جب وہ ان کے متعلق فیصلہ کرچکے تو دوبارہ خون بہنا جاری ہوگیا۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب مرجع النبي صلى الله علیه وسلم من الأحزاب، حدیث:۴۱۲۲۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب جوا زقتال من نقض العهد، حدیث:۶۷؍۱۷۶۹۔) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسی حالت میں گلے لگالیا، خون آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور اور داڑھی مبارک پر پھیلنے لگا، اس کے بعد ان کی روح قفسِ عنصری سے پر واز کرگئی۔ صدیق و فاروق رضی اللہ عنہا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جب دفن کیا جارہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک دو دفعہ سبحان اللہ کہا۔ اور سب صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے بھی سبحان اللہ کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا تو سب نے اللہ اکبر کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کے اس بندے پر متعجب ہوں کہ اس کی قبر پہلے تنگ ہوگئی پھر کشادہ کر دی گئی۔ (دلائل النبوة للبیهقي (۴؍۸۱)۔ المعجم الکبیر للطبراني (۵۲۰۸)۔)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا عرش (خوشی سے) حرکت میں آیا، اس کے لیے آسمان کے تمام دروازے کھول دئیے گئے، اور ستر ہزار ایسے فرشتے اس کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے، جو اس سے پہلے کبھی زمین پر نہیں آئے تھے۔( دلائل النبوة للبیهقي (۴؍۸۰)۔ المعجم الکبیر للطبراني (۵۱۹۵)۔)
آپ غزوۂ احزاب کے سال ۳۷ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ رضی الله عنه وأرضاه۔
تخریج :
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے مسند (۶؍ ۳۲۹) میں روایت کیا ہے۔ آخری جملہ: ((اهْتَزَّ لَهُ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ۔)) صحیح بخاری اور مسلم میں بھی ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاري، کتاب المناقب، باب مناقب الأنصار: ۷ ؍ ۳۸۰۴۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة: ۳ ؍ ۱۲۳، ۱۲۵، برقم: ۱۹۱۵، ۱۹۱۶۔
سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اللہ تعالیٰ کے عرش کا حرکت میں آنا۔ علمائے کرام نے اس کے مفہوم میں اختلاف کیا ہے۔
(۱) ایک قول تو حدیث کے ظاہر کے مطابق ہے کہ سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی روح کے آسمانوں پر جانے کے وقت حقیقتاً عرشِ الٰہی نے بطورِ اظہارِ فرحت وسرور کے حرکت کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بات کی تمیز و معرفت عطا فرمادی تا کہ وہ اس طرح اظہارِ خوشی کرسکے۔
(۲) دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس سے مراد عرش نہیں، بلکہ حاملین عرش ہیں اور حرکت سے مراد خوشی اور فرحت کا اظہار ہے۔
(۳) تیسرا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت ایک بہت بڑا حادثہ تھی، جس سے عرشِ الٰہی بھی متاثر ہوا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عرش کی حرکت کا ذکر دس یا اس سے بھی زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اس لیے صحیح بات یہی ہے جو روایت کے ظاھری الفاظ سے واضح ہورہی ہے۔ عرش کے علاوہ دیگر کئی ایسی چیزوں کا حرکت کرنا ثابت ہے جو عمومی طور پر حرکت نہیں کرتیں، یا ان میں وہ حِسّ نہیں ہوتی، جیسا کہ لکڑی کا وہ ستون جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت بایں طور حاصل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ اسی طرح اُحد پہاڑ، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم صدیق وفاروق اور عثمان ذوالنورین رضی الله عنہم کی آمد پر جھوم اٹھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: ((إِنَّ أُحُدًا نُحِبُّهُ وَیُحِبُّنَا)) (صحیح بخاري، کتاب الجهاد، باب فضل الخدمة فی الغزو، حدیث:۲۸۸۹۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینة، حدیث:۱۳۶۵۔ بلفظ ’’هذا جبل یحبنا ونحبه‘‘۔)’’ اُحد پہاڑ سے ہم محبت رکھتے ہیں اور اُحد پہاڑ بھی ہم سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے چونکہ بنو قریظہ کے یہود کے بارے میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ان کے جنگجو قتل کردیئے جائیں اور ان کی اولادوں اور عورتوں کو قیدی بنالیا جائے، اس لیے جب سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافق لوگ کہنے لگے: ’’ یہ جنازہ تو بہت ہلکا پھلکا ہے۔ ‘‘ اس سے ان کا مطلب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی توہین وتحقیر تھا کہ انہوں نے یہود کے بارے میں ظلم وزیادتی کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے جنازہ ہلکا ہے۔ حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا فیصلہ درست قرار دیا بلکہ فرمایا: یہی فیصلہ اللہ تعالیٰ کا بھی تھا۔ تو منافقین کی مذکورہ بات سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ان کے جنازے کا وزن لوگوں پر کم اس لیے ہے کہ ستر ہزار فرشتے ان کے جنازے میں شریک ہیں اور سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں کہ کون ان کے جنازے کو کندھا دیتا ہے۔‘‘ (سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب مناقب سعد بن معاذ رضي الله عنه، حدیث:۳۸۴۹ وقال ’’حسن صحیح غریب‘‘۔)اس طرح منافقوں کے استحقار کا ایسا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، جس سے سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی شان اور زیادہ بڑھ گئی۔
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے تذکار:
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر مسلمان ہوئے۔ جب مسلمان ہوئے تو اپنی قوم کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: اے بنی عبدالاشہل! اپنے متعلق تم مجھے کیسا جانتے ہو؟ تو وہ کہنے لگے: مرتبہ و مقام کے لحاظ سے تم ہمارے سر دار ہواور ہر طرح نگران اور محافظ ہو۔ تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سب مردوں اور عورتوں سمیت جب تک مسلمان نہیں ہوجاتے، اس وقت تک تم سے میرا بولنا حرام ہے۔ تو بنی عبدالاشہل قبیلے کا کوئی آدمی بھی ایسا نہ رہا جس نے اسلام نہ قبول کرلیا ہو، سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (سیرة ابن هشام (ص:۲۰۰۔۲۰۱)۔)
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمر ہ کی ادائیگی کے لیے مکہ معظمہ گئے تو وہاں امیہ بن خلف کے پاس ٹھہر ے کیونکہ امیہ بھی شام کو تجارت کے لیے جاتے ہوئے ان کے پاس ٹھہرا کرتا تھا۔ امیہ نے کہا: دوپہر ہو نے دو، لوگوں کی بے خبری میں طواف کعبہ کرلینا۔ چنانچہ دوپہر کے وقت سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ جب طواف کر رہے تھے تو ابوجہل آگیا اور کہنے لگا: یہ کون ہے جو امن و اطمینان سے طواف کر رہا ہے؟ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سعد ہوں۔ ابوجہل نے کہا: تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پناہ بھی دے رکھی ہے، پھر بھی نہایت امن سے طواف کر رہے ہو؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں ! ابوجہل نے تلخ کلامی سے کام لیا تو جواباً حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بھی سخت کلامی کی۔ امیہ بن خلف کہنے لگا: ابوالحکم پر آواز بلند نہ کرو، یہ اس وادی کے سردار ہیں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تو نے مجھے طواف سے روک دیا تو میں تیری شام کی تجارت کا راستہ بند کردوں گا۔ اُمیہ بار بار کہتا رہا کہ آواز بلند نہ کرو، یہاں تک کہ سعد رضی اللہ عنہ غصے ہوگئے اور فرمانے لگے: مجھے چھوڑ دو! میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، وہ فرماتے تھے کہ میں اُمیہ کو قتل کردوں گا۔ کہنے لگا: مجھے؟سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں ! تجھے۔ اُمیہ کہنے لگا: خدا کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جب بات کر یں تو جھوٹ نہیں کہتے۔ پھر اس نے جا کر اپنی بیوی سے بات کی کہ میرے یثربی بھائی نے (صلی اللہ علیہ وسلم) جھوٹ نہیں کہتے۔ پھر جب یہ بدر کی لڑائی میں جانے لگا تو اس کی بیوی نے اسے وہ بات یاد دلائی تو اس نے نہ جانے کا ارادہ کرلیا لیکن ابوجہل کہنے لگا: تم اس وادی کے سرداروں میں سے ہو، اس لیے ہمارے ساتھ دن، دو دن تو چلو، وہ نکل پڑا تواللہ تعالیٰ نے اس کو قتل کر دیا۔ (صحیح بخاري، کتاب علامات النبوۃ فی الإسلام، حدیث:۳۶۳۲۔)
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شریک ہوئے، جنگ خندق میں انہیں حبان بن العرقۃ نے ایک تیرا مارا جو ان کے بازو کی رگ میں جالگا، جس سے ان کا بہت سا خون بہہ گیا۔ انھیں وہاں پر داغ بھی دیا گیا مگر اس سے ان کا ہاتھ پھول گیا تو داغنا چھوڑ دیا، پھر دوبارہ داغ دیا تو پھر ہاتھ پھولنے لگا، جب انہوں نے یہ بات دیکھی تو دعا کی: ’’ اے میرے اللہ! جب تک بنو قریظہ کے متعلق میری آنکھوں کو ٹھنڈک نہ مل جائے، مجھے موت نہ دینا۔ ‘‘ ابھی دعا سے فارغ ہوئے تو خون رسنا بند ہوگیا۔ پھر جب وہ ان کے متعلق فیصلہ کرچکے تو دوبارہ خون بہنا جاری ہوگیا۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب مرجع النبي صلى الله علیه وسلم من الأحزاب، حدیث:۴۱۲۲۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب جوا زقتال من نقض العهد، حدیث:۶۷؍۱۷۶۹۔) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسی حالت میں گلے لگالیا، خون آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور اور داڑھی مبارک پر پھیلنے لگا، اس کے بعد ان کی روح قفسِ عنصری سے پر واز کرگئی۔ صدیق و فاروق رضی اللہ عنہا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جب دفن کیا جارہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک دو دفعہ سبحان اللہ کہا۔ اور سب صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے بھی سبحان اللہ کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا تو سب نے اللہ اکبر کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کے اس بندے پر متعجب ہوں کہ اس کی قبر پہلے تنگ ہوگئی پھر کشادہ کر دی گئی۔ (دلائل النبوة للبیهقي (۴؍۸۱)۔ المعجم الکبیر للطبراني (۵۲۰۸)۔)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا عرش (خوشی سے) حرکت میں آیا، اس کے لیے آسمان کے تمام دروازے کھول دئیے گئے، اور ستر ہزار ایسے فرشتے اس کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے، جو اس سے پہلے کبھی زمین پر نہیں آئے تھے۔( دلائل النبوة للبیهقي (۴؍۸۰)۔ المعجم الکبیر للطبراني (۵۱۹۵)۔)
آپ غزوۂ احزاب کے سال ۳۷ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ رضی الله عنه وأرضاه۔