شمائل ترمذی - حدیث 178

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي فَيَقُولُ: ((أَعِنْدَكِ غَدَاءٌ؟)) فَأَقُولُ: لَا. قَالَتْ: فَيَقُولُ: ((إِنِّي صَائِمٌ)) . قَالَتْ: فَأَتَانِي يَوْمًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ قَالَ: ((وَمَا هِيَ؟)) قُلْتُ: حَيْسٌ قَالَ: ((أَمَا إِنِّي أَصْبَحْتُ صَائِمًا)) قَالَتْ: ثُمَّ أَكَلَ

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 178

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں ’’ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لاتے اور فرماتے: کیا تمہارے پاس صبح کے وقت کا کھانے ہے ؟ تو (اگر )میں کہتی : نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے میں روزہ سے ہوں۔ فرماتی ہیں : ایک دن میرے پاس کچھ آیا تو میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس ایک ہدیہ آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : حیس (پنیر اور خشک کھجوروں کا حلوہ) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں صبح سے روزہ سے تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول فرمایا۔‘‘
تشریح : معلوم ہوا کہ نفلی روزہ کی نیت نصف نہار سے قبل کرلینا جائز ہے امام ابوحنیفہ اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے جبکہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رات کو نیت کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عام ہے کہ ’’مَنْ لَمْ یُجَمِّعِ الصّیَامَ بِاللَّیْلِ فَلَا صَوْمَ لَهُ‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الصیام، باب النیة فی الصیام، حدیث:۲۴۵۴، سنن ترمذي (۷۳۰)، سنن نسائي (۲۳۳۲)، سنن ابن ماجة (۱۷۰۰)۔)جس نے رات کو روزے کی نیت نہ کی، اس کا روزہ نہیں ہے۔ ٭ یہ بھی معلوم ہوا کہ نفلی روزہ عند الضرورت توڑنے میں کوئی حرج نہیں، اور اس کی قضاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ ٭ امام طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : چونکہ کھجوریں ایک مستقل کھاناتھا جو بطورِ سالن لوگوں میں رواج پذیر نہیں تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ یہ چیز سالن بننے کے صلاحیت رکھتی ہے۔ میرک شاہ کہتے ہیں : یہ حدیث اس شخص کی دلیل ہے جو کہتا ہے کہ کھجور یں سالن ہے۔ مثلا ً امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ۔ ٭ اس حدیث سے غذا کی تدبیر کرنا بھی ثابت ہو تا ہے۔
تخریج : صحیح مسلم،کتاب الصیام، باب جواز صوم النافله بنیة فی النهار قبل الزوال (۲؍۱۶۹،۱۷۰ برقم ۸۰۸، ۸۰۹)، سنن ترمذي، أبواب الصوم (۳؍۷۳۴)، وقال حدیث حسن، سنن أبي داود،کتاب الصوم (۲؍۲۴۵۵)، سنن نسائي،کتاب الصوم: ۴؍۱۹۴،۱۹۵، صحیح ابن خزیمة: ۳؍۸۰۸، السنن الکبریٰ للبیهقي (۴؍۲۷۵)، مسند أحمد بن حنبل (۶؍۴۹،۲۰۷)۔ معلوم ہوا کہ نفلی روزہ کی نیت نصف نہار سے قبل کرلینا جائز ہے امام ابوحنیفہ اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے جبکہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رات کو نیت کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عام ہے کہ ’’مَنْ لَمْ یُجَمِّعِ الصّیَامَ بِاللَّیْلِ فَلَا صَوْمَ لَهُ‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الصیام، باب النیة فی الصیام، حدیث:۲۴۵۴، سنن ترمذي (۷۳۰)، سنن نسائي (۲۳۳۲)، سنن ابن ماجة (۱۷۰۰)۔)جس نے رات کو روزے کی نیت نہ کی، اس کا روزہ نہیں ہے۔ ٭ یہ بھی معلوم ہوا کہ نفلی روزہ عند الضرورت توڑنے میں کوئی حرج نہیں، اور اس کی قضاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ ٭ امام طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : چونکہ کھجوریں ایک مستقل کھاناتھا جو بطورِ سالن لوگوں میں رواج پذیر نہیں تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ یہ چیز سالن بننے کے صلاحیت رکھتی ہے۔ میرک شاہ کہتے ہیں : یہ حدیث اس شخص کی دلیل ہے جو کہتا ہے کہ کھجور یں سالن ہے۔ مثلا ً امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ۔ ٭ اس حدیث سے غذا کی تدبیر کرنا بھی ثابت ہو تا ہے۔