كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ أُمِّ الْمُنْذِرِ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ، وَلَنَا دَوَالٍ مُعَلَّقَةٌ، قَالَتْ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ وَعَلِيٌّ مَعَهُ يَأْكُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: ((مَهْ يَا عَلِيُّ، فَإِنَّكَ نَاقِهٌ)) ، قَالَتْ: فَجَلَسَ عَلِيٌّ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ، قَالَتْ: فَجَعَلْتُ لَهُمْ سِلْقًا وَشَعِيرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: ((مِنْ هَذَا فَأَصِبْ فَإِنَّ هَذَا أَوْفَقُ لَكَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں
’’سیدہ ام المنذر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے،ا ور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ہمارے ہاں کچی کھجوروں کے کچھ خوشے لٹکے ہوئے تھے۔تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی کھانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : علی ! ٹھہر جاؤ ٹھہر جاؤ، تم (ابھی ابھی بیماری سے صحت یاب ہو نے کی وجہ سے) کمزور ہو، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بیٹھے رہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے لگے، سیدہ ام المنذر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : پھر میں نے ان کے لیے چقندر اور جو پکائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اس سے کھاؤ، یہ تیرے لیے زیادہ موافق ہے۔ ‘‘
تشریح :
اسباب کا استعمال تو کل کے منافی نہیں :
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کھجور کھانے سے اس لیے منع کیا کہ یہ اور اس طرح کے مقوی پھل اور فواکہ کمزور آدمی کو نقصان دیتے ہیں، کیونکہ یہ بہت جلدی اپنی حالت تبدیل کرلیتے ہیں اور کمزور طبیعت ان کا دفاع نہیں کر سکتی کیونکہ اس وقت کمزور آدمی میں قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے۔
جَواور سلق ( چقندر )سے اس لیے منع نہیں کیا کہ وہ اچھی، نرم اور قوت والی غذا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مریض اور کمزور لوگوں کو مضرِ صحت چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بلکہ حکماء کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ مفید چیز پر ہیز ہے کیونکہ بیمار آدمی کا دل کبھی کبھی نہایت مُضر چیز کی طرف مائل ہو تا ہے تو اس صورت میں جب بیماری پلٹ کر آتی ہے تو نہایت نقصان دہ ہوتی ہے۔ کبھی مضر اشیاء تھوڑی مقدار میں استعمال کرنے سے فائدہ بھی ہوجاتا ہے، سیدنا صھیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں اور روٹی کھار ہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قریب آؤ اور کھاؤ۔ میں قریب ہو کر کھجوریں کھانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کھجوریں کھاتے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ میں تکلیف ہے ؟ عرض کیا : جی ہاں ! لیکن میں دوسری جانب دیکھ رہا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الطب، باب الحمیة، حدیث:۳۴۴۳۔)
حدیث الباب سے علم طب کے لیے ایک بہت بڑی بنیاد ثابت ہو تی ہے کہ علاج کرنا بہتر ہے، کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری پیدا کی ہے اس کی دوا بھی ضرور نازل کی ہے مگر بڑھاپا ایسی بیماری ہے جس کی کوئی دوا اور علاج نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الطب، باب فی الرجل یتداوي، حدیث:۳۸۵۵۔ سنن ترمذي، حدیث: ۲۰۳۸۔ سنن ابن ماجة: ۳۴۳۶۔)ایک حدیث میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی شفاء اتاری ہے تو تم علاج کرو۔‘‘ (حوالہ سابق۔)ایک روایت میں ہے کہ ’’ہر بیماری کا علاج ہے مگر موت کا کوئی علاج نہیں۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ اسباب کا استعمال کرنا تو کل کے منافی نہیں ہے جس طرح بھوک روکنے کے لیے کھانا کھانا تو کل کے منافی نہیں۔ محاسبی کہتے ہیں : متوکل آدمی شرعی رقیہ وغیرہ کر سکتا ہے۔ کیونکہ سید المتوکلین نے رقیہ کیا ہے۔ اور جس حدیث میں آیا ہے کہ جس نے رقیہ (دم )کیا یا داغ (آگ سے داغ لگوانا )لگوایا وہ تو کل سے بری ہے اس سے مراد ان ستر ہزار لوگوں کا تو کل ہے جنہیں بلا حساب جنت کا داخلہ ملے گا یعنی ان لوگوں کے تو کل سے بری ہے(سنن ترمذي، کتاب الطب، باب ما جاء في کراهیة الرقیة، حدیث:۲۰۵۵ وقال: حسن صحیح۔ سنن ابن ماجة (۳۴۸۹)۔) اس سے معلوم ہوا کہ تو کل کے بھی درجات ہیں۔ تو جو آدمی اللہ تعالیٰ سے شفا کی امید رکھے اور شریعت کے مطابق دم کرے، او ر مکروہ یا خلافِ شرع دم وغیرہ نہ کرے تو اس کا تو کل بحال رہے گا۔ قاله ابن عبدالبر۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ حقیقت تو حید تب تک مکمل نہیں ہو تی جب تک ان اسباب کو بھی عمل میں نہ لایا جائے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ بلکہ ان اسباب کا تعطل تو کل میں نقصان پیدا کرتا ہے۔ (یہ بحث امام غزالی نے احیاء میں ذکر کی ہے۔)
یہ جو حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ہر بیماری کی دواء ہے اس میں بیما ر آدمی کے دل کو تسلی دی گئی ہے اور اسے مضبوط کیا گیا ہے تا کہ وہ مایوس نہ ہو جائے، اسی طرح حکیم اور طبیب کو ہمت دی گئی ہے کہ وہ تلاش وجستجو جاری رکھے اور بیماری کو لا علاج سمجھ کر مایوس نہ ہو جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ پر کامل اور سچا اعتماد و تو کل اور اس کے لیے خشوع وخضوع، نیز صدقہ وخیرات کرنا، مصیبت زدہ سے تکلیف دور کرنا، یہ اعمال تو بشرط صحت نیت حسِّی علاج ودواء سے بہتر اور زیادہ نفع بخش ہیں۔ طبِ نبوی کے لیے امام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’زاد المعاد فی ھدی خیر العباد‘‘ بہترین کتاب ہے۔
تخریج :
یہ حدیث بقول محدث الزمان علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ حسن درجہ کی ہے۔ سنن ترمذي، أبواب الطب عن رسول الله صلى الله علیه وسلم (۴؍۲۰۳۷)وقال أبوعیسیٰ: هذا حدیث حسن غریب لا نعرفه إلا من حدیث فلیح، سنن أبي داود،کتاب الطب، باب في الحمیة (۴؍۳۸۵۶)، سنن ابن ماجة،کتاب الطب، باب في الحمیة (۲؍۳۴۴۲)، مسند أحمد بن حنبل (۶؍۳۶۳،۳۶۴)، مستدرك حاکم (۴؍۴۰۷) امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر شیخین نے اس کو روایت نہیں کیا امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کی موافقت کی ہے، او ر علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو سلسلة الأحادیث الصحیحة میں حسن قرار دیا ہے۔ (۵۹)
اسباب کا استعمال تو کل کے منافی نہیں :
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کھجور کھانے سے اس لیے منع کیا کہ یہ اور اس طرح کے مقوی پھل اور فواکہ کمزور آدمی کو نقصان دیتے ہیں، کیونکہ یہ بہت جلدی اپنی حالت تبدیل کرلیتے ہیں اور کمزور طبیعت ان کا دفاع نہیں کر سکتی کیونکہ اس وقت کمزور آدمی میں قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے۔
جَواور سلق ( چقندر )سے اس لیے منع نہیں کیا کہ وہ اچھی، نرم اور قوت والی غذا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مریض اور کمزور لوگوں کو مضرِ صحت چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بلکہ حکماء کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ مفید چیز پر ہیز ہے کیونکہ بیمار آدمی کا دل کبھی کبھی نہایت مُضر چیز کی طرف مائل ہو تا ہے تو اس صورت میں جب بیماری پلٹ کر آتی ہے تو نہایت نقصان دہ ہوتی ہے۔ کبھی مضر اشیاء تھوڑی مقدار میں استعمال کرنے سے فائدہ بھی ہوجاتا ہے، سیدنا صھیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں اور روٹی کھار ہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قریب آؤ اور کھاؤ۔ میں قریب ہو کر کھجوریں کھانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کھجوریں کھاتے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ میں تکلیف ہے ؟ عرض کیا : جی ہاں ! لیکن میں دوسری جانب دیکھ رہا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الطب، باب الحمیة، حدیث:۳۴۴۳۔)
حدیث الباب سے علم طب کے لیے ایک بہت بڑی بنیاد ثابت ہو تی ہے کہ علاج کرنا بہتر ہے، کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری پیدا کی ہے اس کی دوا بھی ضرور نازل کی ہے مگر بڑھاپا ایسی بیماری ہے جس کی کوئی دوا اور علاج نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الطب، باب فی الرجل یتداوي، حدیث:۳۸۵۵۔ سنن ترمذي، حدیث: ۲۰۳۸۔ سنن ابن ماجة: ۳۴۳۶۔)ایک حدیث میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی شفاء اتاری ہے تو تم علاج کرو۔‘‘ (حوالہ سابق۔)ایک روایت میں ہے کہ ’’ہر بیماری کا علاج ہے مگر موت کا کوئی علاج نہیں۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ اسباب کا استعمال کرنا تو کل کے منافی نہیں ہے جس طرح بھوک روکنے کے لیے کھانا کھانا تو کل کے منافی نہیں۔ محاسبی کہتے ہیں : متوکل آدمی شرعی رقیہ وغیرہ کر سکتا ہے۔ کیونکہ سید المتوکلین نے رقیہ کیا ہے۔ اور جس حدیث میں آیا ہے کہ جس نے رقیہ (دم )کیا یا داغ (آگ سے داغ لگوانا )لگوایا وہ تو کل سے بری ہے اس سے مراد ان ستر ہزار لوگوں کا تو کل ہے جنہیں بلا حساب جنت کا داخلہ ملے گا یعنی ان لوگوں کے تو کل سے بری ہے(سنن ترمذي، کتاب الطب، باب ما جاء في کراهیة الرقیة، حدیث:۲۰۵۵ وقال: حسن صحیح۔ سنن ابن ماجة (۳۴۸۹)۔) اس سے معلوم ہوا کہ تو کل کے بھی درجات ہیں۔ تو جو آدمی اللہ تعالیٰ سے شفا کی امید رکھے اور شریعت کے مطابق دم کرے، او ر مکروہ یا خلافِ شرع دم وغیرہ نہ کرے تو اس کا تو کل بحال رہے گا۔ قاله ابن عبدالبر۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ حقیقت تو حید تب تک مکمل نہیں ہو تی جب تک ان اسباب کو بھی عمل میں نہ لایا جائے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ بلکہ ان اسباب کا تعطل تو کل میں نقصان پیدا کرتا ہے۔ (یہ بحث امام غزالی نے احیاء میں ذکر کی ہے۔)
یہ جو حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ہر بیماری کی دواء ہے اس میں بیما ر آدمی کے دل کو تسلی دی گئی ہے اور اسے مضبوط کیا گیا ہے تا کہ وہ مایوس نہ ہو جائے، اسی طرح حکیم اور طبیب کو ہمت دی گئی ہے کہ وہ تلاش وجستجو جاری رکھے اور بیماری کو لا علاج سمجھ کر مایوس نہ ہو جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ پر کامل اور سچا اعتماد و تو کل اور اس کے لیے خشوع وخضوع، نیز صدقہ وخیرات کرنا، مصیبت زدہ سے تکلیف دور کرنا، یہ اعمال تو بشرط صحت نیت حسِّی علاج ودواء سے بہتر اور زیادہ نفع بخش ہیں۔ طبِ نبوی کے لیے امام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’زاد المعاد فی ھدی خیر العباد‘‘ بہترین کتاب ہے۔