كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنْزِلِنَا فَذَبَحْنَا لَهُ شَاةً، فَقَالَ: ((كَأَنَّهُمْ عَلِمُوا أَنَّا نُحِبُّ اللَّحْمَ)) وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ "
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں
’’سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بکری ذبح کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے۔ انہوں نے ایسے کیا گویا کہ انہیں معلوم تھا کہ ہم گوشت کو پسند کرتے ہیں۔ اس روایت میں ایک قصہ ہے۔‘‘
تشریح :
حدیث الباب سے ثابت ہو تا ہے کہ:
٭ میز بان کو مانوس کرنا، اور ان کا مہمانی پر حوصلہ بڑھانا بہتر ہے، ورنہ گوشت پر اظہارِ محبت وشغف مقصد نہیں تھا۔ یہ بھی ثابت ہو اکہ مہمان کی مرضی کے مطابق تیاری کرنی چاہیے، مہمان کو بھی اپنی من پسند چیز بتا دینی چاہیے، تا کہ میزبان کو مشقت نہ ہو۔
٭ وَفیِ الْحَدِیْثِ قِصَّۃٌ: اس حدیث میں ایک واقعہ ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق میں اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس سے پوچھا : کیا تیرے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید بھوک کے اثرات دیکھے ہیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میری بیوی ایک تھیلا باہر نکال کر لائی جس میں تقریبا ً ایک صاع جو تھے۔ اور ایک موٹی تازی بکری بھی ہمارے گھر میں تھی۔ میں نے اس کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جوپیسے، تو ہم نے گوشت ہنڈیامیں ڈال دیا اور میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوشیدہ طور پر اطلاع دیدی اور میں نے کہا : آپ کچھ لوگوں سمیت آجائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز میں فرمایا: ’’اے اہلِ خندق! جابر نے آج تمہاری دعوت کی ہے اور کھانے پر بلایا ہے لہٰذا تم سب جلدی آؤ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ’’میرے آنے تک ہنڈیا نہ اتارنا، اور روٹیاں بھی نہ پکانا۔ ‘‘
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آٹا پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا لعابِ دہن ڈالا، اور برکت کی دعا کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنڈیا کی طرف گئے اس میں بھی ایسے ہی کیا۔ پھر فرمایا : پکانے والی کو بلاؤ، اور فرمایا: ہنڈیا سے نکال کر دیتی جاؤ، مگر چولہے سے نہ اتارنا۔ لوگ اس دن ایک ہزار سے زیادہ تھے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر فرمایا : کہ سب نے کھانا کھایا یہاں تک کہ ان سے بچ گیا اور وہ واپس ہوگئے۔ حالانکہ ہنڈیا ابھی اُبل رہی تھی اور اس کے اُبلنے کی آواز آرہی تھی۔ او ر آٹا ابھی پکا یا جارہا تھا۔ (صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب غزوة خندق، حدیث:۴۱۰۲۔ صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعه غیه إلی دار...، حدیث:۲۰۳۸۔)
یہ رو ایت صحیح بخاری ومسلم میں ہے جبکہ صحیح ابن حبان اور مستدرك حاکم میں اس سے الگ ایک اور واقعہ مذکور ہے جس کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے شمائل میں مختصر ًا ذکر کیا ہے واقعہ یوں ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب میرے والد شہید ہوگئے تو کافی قرض چھوڑ گئے۔ جس کی ادائیگی پر میں پر یشان تھا میں نے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر نا چاہی، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر آنے کا وعدہ کیا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا : آج دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف لارہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری طرح خاطر ومدارات اور خدمت وتواضع ہو نی چاہیے۔ چنانچہ میری بیوی نے بستر بچھا دیا۔ جب نبیٔ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو تکیہ پر سر رکھ کر سوگئے۔ میں نے اپنے خادم کو بکری ذبح کرنے کا حکم دیا اور پھر اس کے ساتھ مل کر کھانا تیار کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب کیا اور وضوکیا، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضوء سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا لگا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو علم ہے کہ ہم گوشت پسند کرتے ہیں، ابوبکر اور ان کے ساتھیوں کو بھی بلالاؤ۔‘‘ جب وہ آگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو۔‘‘ جب تمام حضرات نے کھانا کھا لیا تو ابھی بہت سا گوشت ہنڈیا میں باقی بچا ہوا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس جانے لگے تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے عرض کیا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے لیے اور میرے خاوند کے لیے دعا فرمائیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔( مستدرك حاکم (۴؍۱۱۱)۔ صحیح ابن حبان (۹۸۰)۔)
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن دارمي، مقدمة (۱؍۴۵)، مسند أحمد بن حنبل مطولًا (۳؍۳۹۷،۳۹۸)، ومختصرا (۳؍۳۵۳)، اس روایت کو عراقی نے بھی احیاء العلوم کی تخریج (۲؍۵۷۷) میں ذکر کیا ہے۔اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔ سنن أبي داود، کتاب الصلوۃ، باب الصلوة علی غیر النبي صلى الله علیه وسلم، مستدرك حاکم (۴؍۱۱۱)، صحیح ابن حبان، حدیث نمبر (۹۸۰)۔
حدیث الباب سے ثابت ہو تا ہے کہ:
٭ میز بان کو مانوس کرنا، اور ان کا مہمانی پر حوصلہ بڑھانا بہتر ہے، ورنہ گوشت پر اظہارِ محبت وشغف مقصد نہیں تھا۔ یہ بھی ثابت ہو اکہ مہمان کی مرضی کے مطابق تیاری کرنی چاہیے، مہمان کو بھی اپنی من پسند چیز بتا دینی چاہیے، تا کہ میزبان کو مشقت نہ ہو۔
٭ وَفیِ الْحَدِیْثِ قِصَّۃٌ: اس حدیث میں ایک واقعہ ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق میں اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس سے پوچھا : کیا تیرے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید بھوک کے اثرات دیکھے ہیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میری بیوی ایک تھیلا باہر نکال کر لائی جس میں تقریبا ً ایک صاع جو تھے۔ اور ایک موٹی تازی بکری بھی ہمارے گھر میں تھی۔ میں نے اس کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جوپیسے، تو ہم نے گوشت ہنڈیامیں ڈال دیا اور میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوشیدہ طور پر اطلاع دیدی اور میں نے کہا : آپ کچھ لوگوں سمیت آجائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز میں فرمایا: ’’اے اہلِ خندق! جابر نے آج تمہاری دعوت کی ہے اور کھانے پر بلایا ہے لہٰذا تم سب جلدی آؤ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ’’میرے آنے تک ہنڈیا نہ اتارنا، اور روٹیاں بھی نہ پکانا۔ ‘‘
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آٹا پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا لعابِ دہن ڈالا، اور برکت کی دعا کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنڈیا کی طرف گئے اس میں بھی ایسے ہی کیا۔ پھر فرمایا : پکانے والی کو بلاؤ، اور فرمایا: ہنڈیا سے نکال کر دیتی جاؤ، مگر چولہے سے نہ اتارنا۔ لوگ اس دن ایک ہزار سے زیادہ تھے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر فرمایا : کہ سب نے کھانا کھایا یہاں تک کہ ان سے بچ گیا اور وہ واپس ہوگئے۔ حالانکہ ہنڈیا ابھی اُبل رہی تھی اور اس کے اُبلنے کی آواز آرہی تھی۔ او ر آٹا ابھی پکا یا جارہا تھا۔ (صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب غزوة خندق، حدیث:۴۱۰۲۔ صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعه غیه إلی دار...، حدیث:۲۰۳۸۔)
یہ رو ایت صحیح بخاری ومسلم میں ہے جبکہ صحیح ابن حبان اور مستدرك حاکم میں اس سے الگ ایک اور واقعہ مذکور ہے جس کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے شمائل میں مختصر ًا ذکر کیا ہے واقعہ یوں ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب میرے والد شہید ہوگئے تو کافی قرض چھوڑ گئے۔ جس کی ادائیگی پر میں پر یشان تھا میں نے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر نا چاہی، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر آنے کا وعدہ کیا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا : آج دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف لارہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری طرح خاطر ومدارات اور خدمت وتواضع ہو نی چاہیے۔ چنانچہ میری بیوی نے بستر بچھا دیا۔ جب نبیٔ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو تکیہ پر سر رکھ کر سوگئے۔ میں نے اپنے خادم کو بکری ذبح کرنے کا حکم دیا اور پھر اس کے ساتھ مل کر کھانا تیار کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب کیا اور وضوکیا، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضوء سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا لگا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو علم ہے کہ ہم گوشت پسند کرتے ہیں، ابوبکر اور ان کے ساتھیوں کو بھی بلالاؤ۔‘‘ جب وہ آگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو۔‘‘ جب تمام حضرات نے کھانا کھا لیا تو ابھی بہت سا گوشت ہنڈیا میں باقی بچا ہوا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس جانے لگے تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے عرض کیا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے لیے اور میرے خاوند کے لیے دعا فرمائیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔( مستدرك حاکم (۴؍۱۱۱)۔ صحیح ابن حبان (۹۸۰)۔)