كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ، عَنِ ابْنِهِ وَهُوَ بَكْرُ بْنُ وَائِلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: ((أَوْلَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَفِيَّةَ بِتَمْرٍ وَسَوِيقٍ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدتنا صفیہ (بنت حي) رضی اللہ عنہا کا ولیمہ کھجور اور ستو سے کیا۔
تشریح :
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمے کے بارے صحیحین میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح میں ’’حَیْس‘‘ کے ساتھ ولیمہ کیا تھا۔ (صحیح بخاري، کتاب النکاح، باب الولیمة ولو بشاة، حدیث:۵۱۶۹۔ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب فضیلة إعتاقه أمته ثم یتزوجها، حدیث:۸۴؍۱۳۶۵۔)’’حَیْس‘‘ وہ کھانا جو کھجوروں، پنیر اور گھی سے بنایا جائے، کبھی پنیر کی جگہ گندم یا جو کا آٹا بھی ڈال لیتے ہیں۔ المصباح المنیر میں ہے حَیْس یہ ہے کہ کھجوروں سے گٹھلیاں نکال کر ان کو پنیر کے ساتھ کوٹ کر یکجا کر لیا جائے پھر گھی میں گوندھ کر ہاتھوں سے مل لے، یہاں تک کہ ثرید بن جائے، اور اس میں اکثر سَتّو بھی ڈال لیتے ہیں۔
٭ ولیمہ صرف شادی کے بعد والے کھانے کو کہا جاتا ہے۔ یہ وَلِمَ سے ماخوذ ہے جس کے معنی جمع ہونے کے ہیں کیونکہ شادی کے بعد میاں بیوی بھی جمع ہو تے ہیں اس لیے ان کے جمع ہو نے کے بعد جو کھانا دیا جاتا ہے اسے ولیمہ کہا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ولیمہ ہر خوشی کے کھانے کو کہتے ہیں جس میں اہل خانہ کے ساتھ دوسرے افراد بھی جمع ہوں مگر جب یہ لفظ علی الاطلاق آئے تو شادی کے کھانے پر بولا جاتا ہے، ختنہ کے موقع پر جو کھانے ہوا اسے ولیمته الختان سے مقیدکر کے بولتے ہیں۔ قاضی عیاض نے دعوتِ ولیمہ قبول کرنے پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔
٭ سیدتناصفیہ رضی اللہ عنہا حیی بن اخطب یہودی کی بیٹی تھیں، یہ حضرت ھارون علیہ السلام، (موسیٰ علیہ السلام کے بھائی) کی نسل سے ہیں۔ یہ اپنی قوم کی خوب صورت ترین عورت تھیں، کنانتہ بن ابی الحقیق کے نکاح میں تھیں، جب وہ ۷ھ میں خیبر کے دن قتل ہو گیا تو یہ قیدیوں میں شامل کی گئیں تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں انپے حصے میں رکھ لیا۔ انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند ان کی گود میں آگرا ہے تو اس کی یہی تاویل کی گئی۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں چلی گئیں تو لوگوں نے آکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: صفیہ سردار کی بیٹی ہے اس لیے یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہو نی چائیے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو ان کے بدل میں سات لونڈیاں دے کر واپس لے لیا پھر یہ مسلمان ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔( صحیح بخاري، کتاب الصلاة، باب ما یذکر في الفخذ، حدیث:۳۷۱۔ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب فضیلة إعتاقه أمته ثم یتزوجها، حدیث:۸۴؍۱۳۶۵۔) یہ ۵۰ھ میں فوت ہو ئیں اور البقیع میں دفن ہوئیں رضي الله عنها وارضاها۔
تخریج :
صحیح بخاری،کتاب الصلوة، باب ما یذکر في الفخذ (۱؍۳۷۱)، صحیح مسلم،کتاب النکاح، باب فضیلة إعتاقه أمته ثم یتزوجها، سنن ترمذي أبواب النکاح (۳؍۱۰۹۵)،وقال حدیث حسن غریب، سنن أبي داود،کتاب الأطعمة (۳؍۳۷۴۴)، سنن ابن ماجة (۱؍۱۹۰۹)، مسند أحمد بن حنبل (۳؍۱۱۰)۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمے کے بارے صحیحین میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح میں ’’حَیْس‘‘ کے ساتھ ولیمہ کیا تھا۔ (صحیح بخاري، کتاب النکاح، باب الولیمة ولو بشاة، حدیث:۵۱۶۹۔ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب فضیلة إعتاقه أمته ثم یتزوجها، حدیث:۸۴؍۱۳۶۵۔)’’حَیْس‘‘ وہ کھانا جو کھجوروں، پنیر اور گھی سے بنایا جائے، کبھی پنیر کی جگہ گندم یا جو کا آٹا بھی ڈال لیتے ہیں۔ المصباح المنیر میں ہے حَیْس یہ ہے کہ کھجوروں سے گٹھلیاں نکال کر ان کو پنیر کے ساتھ کوٹ کر یکجا کر لیا جائے پھر گھی میں گوندھ کر ہاتھوں سے مل لے، یہاں تک کہ ثرید بن جائے، اور اس میں اکثر سَتّو بھی ڈال لیتے ہیں۔
٭ ولیمہ صرف شادی کے بعد والے کھانے کو کہا جاتا ہے۔ یہ وَلِمَ سے ماخوذ ہے جس کے معنی جمع ہونے کے ہیں کیونکہ شادی کے بعد میاں بیوی بھی جمع ہو تے ہیں اس لیے ان کے جمع ہو نے کے بعد جو کھانا دیا جاتا ہے اسے ولیمہ کہا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ولیمہ ہر خوشی کے کھانے کو کہتے ہیں جس میں اہل خانہ کے ساتھ دوسرے افراد بھی جمع ہوں مگر جب یہ لفظ علی الاطلاق آئے تو شادی کے کھانے پر بولا جاتا ہے، ختنہ کے موقع پر جو کھانے ہوا اسے ولیمته الختان سے مقیدکر کے بولتے ہیں۔ قاضی عیاض نے دعوتِ ولیمہ قبول کرنے پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔
٭ سیدتناصفیہ رضی اللہ عنہا حیی بن اخطب یہودی کی بیٹی تھیں، یہ حضرت ھارون علیہ السلام، (موسیٰ علیہ السلام کے بھائی) کی نسل سے ہیں۔ یہ اپنی قوم کی خوب صورت ترین عورت تھیں، کنانتہ بن ابی الحقیق کے نکاح میں تھیں، جب وہ ۷ھ میں خیبر کے دن قتل ہو گیا تو یہ قیدیوں میں شامل کی گئیں تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں انپے حصے میں رکھ لیا۔ انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند ان کی گود میں آگرا ہے تو اس کی یہی تاویل کی گئی۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں چلی گئیں تو لوگوں نے آکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: صفیہ سردار کی بیٹی ہے اس لیے یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہو نی چائیے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو ان کے بدل میں سات لونڈیاں دے کر واپس لے لیا پھر یہ مسلمان ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔( صحیح بخاري، کتاب الصلاة، باب ما یذکر في الفخذ، حدیث:۳۷۱۔ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب فضیلة إعتاقه أمته ثم یتزوجها، حدیث:۸۴؍۱۳۶۵۔) یہ ۵۰ھ میں فوت ہو ئیں اور البقیع میں دفن ہوئیں رضي الله عنها وارضاها۔