شمائل ترمذی - حدیث 171

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ الْأَنْصَارِيُّ أَبُو طُوَالَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 171

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضلیت عورتوں پر ایسے ہے جس طرح ثرید کی تمام کھانوں پر ہے۔ ‘‘
تشریح : حدیث الباب میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تمام عورتوں پر فضلیت دی گئی ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہاں مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضلیت تمام عورتوں پر ہے یہاں تک کہ سیدہ آسیہ اور ام موسی پر بھی۔‘‘ بعض نے سیدہ آسیہ اور سیدہ مریم رحمہم اللہ کو مستثنیٰ کیا ہے۔ اس بارے میں روایات باہم دیگر مختلف ہیں کسی روایت میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تمام عورتوں پر فضلیت دی گئی ہے، دیگر احادیث میں مریم علیہا السلام اور بعض احادیث میں سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کو تمام عورتوں پر فضلیت دی گئی ہے۔ ان روایات میں سے کچھ صحیح رویاات ہیں کچھ ضعیف اور بعض من گھڑت بھی ہیں۔ ذیل میں کچھ روایات ملاحظہ فرمائیں۔ ۱: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مریم بنت عمران علیہا السلام کے علاوہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ (سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل فاطمة رضي الله عنها، حدیث:۳۸۷۳۔ وقال: حسن غریب۔) ۲: مریم بنت عمران، آسیہ امراۃ فرعون اور خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہن کے علاوہ فاطمۃ الزہراء تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ (مصنف ابن أبي شیبة (۷؍۵۲۷) عن عبد الرحمن بن أبي لیلیٰ مرسلاً۔) ۳: سنن ترمذي میں ہے: ’’دنیا کی تمام عورتوں سے بہتر مریم، خدیجہ، فاطمہ اور آسیہ، رضی اللہ عنھن ہیں۔ ‘‘(سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب فضل خدیجة رضي الله عنها، حدیث:۳۸۷۸۔ وقال: صحیح۔) ۴: صحیح بخاری ومسلم میں روایت ہے: ’’دنیا کی بہترین عورتیں مریم اور خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ‘‘(صحیح بخاري، کتاب مناقب الأنصار، باب ﴿وإذ قالت الملائکة یامریم...﴾، حدیث:۳۴۳۲۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل خدیجة رضي الله عنها، حدیث:۲۴۳۰۔) ۵: صحیح بخاری میں حدیث ہے: ’’فاطمۃ رضی اللہ عنہا اس امت کی جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الاستئذان، باب من ناجی بین یدي الناس، حدیث:۶۲۸۵،۶۲۸۶۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل فاطمة رضي الله عنها، حدیث:۹۹؍۲۴۵۰۔) ۶: سنن نسائي شریف میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک فرشتہ آیا ہے اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کہنے کی اجازت مانگی اورا س نے یہ خوشخبری دی ہے کہ حسن وحسین جنت کے جوانوں کے سردار ہو نگے اور ان کی ماں جنتی عورتوں کی سردار ہو گی۔ ‘‘(سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب (۱۰۴)، حدیث:۳۷۸۱ وقال: حسن غریب۔ سنن کبری نسائي(۸۲۹۸)۔) ۷: معجم طبرانی میں موضوع یعنی من گھڑت طریق سے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: ’’قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تمام لوگ نظریں نیچی کر لو تا کہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم گزرجائیں۔ ‘‘(معجم کبیر طبراني(۱؍۱۰۸)۔ مستدرك حاکم (۳؍۱۵۳) یہ روایت موضوع ہے۔ عباس بن ولید ضبی راوی کذاب ہے۔) ۸: مسند حارث میں مرسلا صحیح روایت میں ہے کہ ’’مریم رحمہ اللہ اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار ہیں اور فاطمہ رضی اللہ عنہا ا پنے وقت کی عورتوں کی سردار ہیں۔‘‘( مسند الحارث (زوائد:۹۹۴) عن ہشام بن عروۃ عن أبیہ۔ سند مرسل ہے۔) ۹: امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ ’’جنتی عورتوں کی سردار مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں، پھر فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا، پھر خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، اور پھر آسیہ رضی اللہ عنہا۔‘‘(تاریخ دمشق لابن عساکر (۷۰؍۱۰۶۔۱۰۷)۔) ۱۰: امام ابن ابی شیبہ نے عبدالرحمان بن ابی لیلی سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دنیا کی جنتی عورتوں کی سردار مریم علیہا السلام کے بعد فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ‘‘(مصنف ابن أبي شیبة (۷؍۵۲۷) وإسناده ضعیف۔ سند مرسل ہے۔) ۱۱: امام ابن ابی شیبہ نے مکحول سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہترین عورتیں جواونٹوں پر بیٹھتی ہیں قریش کی عورتیں ہیں جو بچے پر بہت زیادہ شفقت کر تیں ہیں اور خاوند کا اور اس کے مال کا بہت زیادہ خیال رکھتی ہیں اگر مجھے معلوم ہو کہ مریم علیہا السلام اونٹ پر بیٹھتی تھیں تو میں ان پر کسی کو فضلیت نہ دوں۔ ‘‘(مصنف ابن أبي شیبة (۷؍۵۴۷) وإسناده ضعیف۔ سند مرسل ہے۔ اس مفہوم کی روایت صحیح بخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول الله تعالی ﴿إذ قالت الملائکة یا مریم...﴾، حدیث: ۳۴۳۴ میں تعلیقاً اور صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل نساء قریش، حدیث:۲۰۱؍۲۵۲۷ میں سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موصولاً مروی ہے۔) ۱۲: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مردوں سے بہت لوگ کامل ہوئے مگر عورتوں میں صرف مریم علیہا السلام آسیہ علیہا السلام اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کامل ہوئی ہیں، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضلیت عورتوں پر اس طرح ہے جس طرح ثرید کی تمام کھانوں پر ہے۔ ‘‘(صحیح بخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰه تعالی ﴿إذ قالت الملائکة یامریم...﴾، حدیث:۳۴۳۳۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل خدیجة رضي الله عنها، حدیث:۲۴۳۱۔) ۱۳: امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ام المؤمنین سیدہ خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ عنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے افضل ہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ عنہا سے بہتر چیز دے دی (یعنی میرا وجود )تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم ! مجھے اس نے ان سے بہتر نہیں دیا، کیونکہ اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب تمام لوگوں نے مجھے جھٹلایا تھا، اس نے اس وقت مجھے اپنا مال دیا جب لوگوں نے مجھے ہر چیز سے محروم کر دیا۔ ‘‘ (سیرة النبی صلى الله علیه وسلم لابن کثیر (۱؍۳۹۵)۔ مسند أحمد (۶؍۱۱۸)، وإسناده ضعیف، سند میں مجالد بن سعید راوی ضعیف ہے۔) ۱۴: ابن ابی داؤد رحمہ اللہ سے اس بارے میں کسی نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کا سلام پہنچایا جبکہ سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو جبرئیل امین علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ عزوجل کا سلام پہنچایا، توافضل واعلیٰ تو خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہوئیں۔ کہا گیا کہ فاطمۃ الزھرا ء افضل ہیں یاان کی والدہ محترمہ ؟ تو انہوں نے کہا : ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بضعہ پر کسی دوسرے کے بضعہ کو فضلیت نہیں دے سکتے۔ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ عنہا بنت خویلدہیں۔ ۱۵: امام سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہماری پسند اور ہمارا ایمان ودین یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سب سے افضل ہیں پھر ان کی ماں خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ۔ علامہ علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’خلاصہ یہ ہے کہ حیثیات مختلف ہیں، روایات ایک دوسرے سے متعارض ہیں، مسئلہ ظنی ہے، توقف کرنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں، لہٰذا اس مسئلہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہی بہتر ہے۔ ‘‘ ہمارے نزدیک اس بارے میں واضح اور صحیح موقف وہی ہے جو صحیحین کی روایات میں ہے کہ سیّدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر ہیں۔ اسی طرح سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ، سیّدہ فاطمۃ الزہراء کی والدہ ہونے کی وجہ سے ان سے زیادہ مقام و مرتبہ رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم
تخریج : صحیح بخاری،کتاب فضائل الصحابة، باب عائشة رضي الله عنها (۷؍۳۷۷۰)، وکتاب الأطعمة، باب الثرید (۹؍۵۴۱۹،۵۴۲۷) صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عائشة رضي الله عنها (۴؍۸۹ برقم ۱۸۹۵)سنن ترمذي، أبواب المناقب (۵؍۳۸۸۷)، وقال هذا حدیث حسن، سنن ابن ماجة،کتاب الأطعمة (۲؍۳۲۸۱)، سنن دارمي،کتاب الأطعمة (۲؍۲۰۶۹)، مسند أحمد بن حنبل (۳؍۱۵۶،۲۶۴)۔ حدیث الباب میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تمام عورتوں پر فضلیت دی گئی ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہاں مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضلیت تمام عورتوں پر ہے یہاں تک کہ سیدہ آسیہ اور ام موسی پر بھی۔‘‘ بعض نے سیدہ آسیہ اور سیدہ مریم رحمہم اللہ کو مستثنیٰ کیا ہے۔ اس بارے میں روایات باہم دیگر مختلف ہیں کسی روایت میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تمام عورتوں پر فضلیت دی گئی ہے، دیگر احادیث میں مریم علیہا السلام اور بعض احادیث میں سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کو تمام عورتوں پر فضلیت دی گئی ہے۔ ان روایات میں سے کچھ صحیح رویاات ہیں کچھ ضعیف اور بعض من گھڑت بھی ہیں۔ ذیل میں کچھ روایات ملاحظہ فرمائیں۔ ۱: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مریم بنت عمران علیہا السلام کے علاوہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ (سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل فاطمة رضي الله عنها، حدیث:۳۸۷۳۔ وقال: حسن غریب۔) ۲: مریم بنت عمران، آسیہ امراۃ فرعون اور خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہن کے علاوہ فاطمۃ الزہراء تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ (مصنف ابن أبي شیبة (۷؍۵۲۷) عن عبد الرحمن بن أبي لیلیٰ مرسلاً۔) ۳: سنن ترمذي میں ہے: ’’دنیا کی تمام عورتوں سے بہتر مریم، خدیجہ، فاطمہ اور آسیہ، رضی اللہ عنھن ہیں۔ ‘‘(سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب فضل خدیجة رضي الله عنها، حدیث:۳۸۷۸۔ وقال: صحیح۔) ۴: صحیح بخاری ومسلم میں روایت ہے: ’’دنیا کی بہترین عورتیں مریم اور خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ‘‘(صحیح بخاري، کتاب مناقب الأنصار، باب ﴿وإذ قالت الملائکة یامریم...﴾، حدیث:۳۴۳۲۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل خدیجة رضي الله عنها، حدیث:۲۴۳۰۔) ۵: صحیح بخاری میں حدیث ہے: ’’فاطمۃ رضی اللہ عنہا اس امت کی جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الاستئذان، باب من ناجی بین یدي الناس، حدیث:۶۲۸۵،۶۲۸۶۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل فاطمة رضي الله عنها، حدیث:۹۹؍۲۴۵۰۔) ۶: سنن نسائي شریف میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک فرشتہ آیا ہے اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کہنے کی اجازت مانگی اورا س نے یہ خوشخبری دی ہے کہ حسن وحسین جنت کے جوانوں کے سردار ہو نگے اور ان کی ماں جنتی عورتوں کی سردار ہو گی۔ ‘‘(سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب (۱۰۴)، حدیث:۳۷۸۱ وقال: حسن غریب۔ سنن کبری نسائي(۸۲۹۸)۔) ۷: معجم طبرانی میں موضوع یعنی من گھڑت طریق سے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: ’’قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تمام لوگ نظریں نیچی کر لو تا کہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم گزرجائیں۔ ‘‘(معجم کبیر طبراني(۱؍۱۰۸)۔ مستدرك حاکم (۳؍۱۵۳) یہ روایت موضوع ہے۔ عباس بن ولید ضبی راوی کذاب ہے۔) ۸: مسند حارث میں مرسلا صحیح روایت میں ہے کہ ’’مریم رحمہ اللہ اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار ہیں اور فاطمہ رضی اللہ عنہا ا پنے وقت کی عورتوں کی سردار ہیں۔‘‘( مسند الحارث (زوائد:۹۹۴) عن ہشام بن عروۃ عن أبیہ۔ سند مرسل ہے۔) ۹: امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ ’’جنتی عورتوں کی سردار مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں، پھر فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا، پھر خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، اور پھر آسیہ رضی اللہ عنہا۔‘‘(تاریخ دمشق لابن عساکر (۷۰؍۱۰۶۔۱۰۷)۔) ۱۰: امام ابن ابی شیبہ نے عبدالرحمان بن ابی لیلی سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دنیا کی جنتی عورتوں کی سردار مریم علیہا السلام کے بعد فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ‘‘(مصنف ابن أبي شیبة (۷؍۵۲۷) وإسناده ضعیف۔ سند مرسل ہے۔) ۱۱: امام ابن ابی شیبہ نے مکحول سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہترین عورتیں جواونٹوں پر بیٹھتی ہیں قریش کی عورتیں ہیں جو بچے پر بہت زیادہ شفقت کر تیں ہیں اور خاوند کا اور اس کے مال کا بہت زیادہ خیال رکھتی ہیں اگر مجھے معلوم ہو کہ مریم علیہا السلام اونٹ پر بیٹھتی تھیں تو میں ان پر کسی کو فضلیت نہ دوں۔ ‘‘(مصنف ابن أبي شیبة (۷؍۵۴۷) وإسناده ضعیف۔ سند مرسل ہے۔ اس مفہوم کی روایت صحیح بخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول الله تعالی ﴿إذ قالت الملائکة یا مریم...﴾، حدیث: ۳۴۳۴ میں تعلیقاً اور صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل نساء قریش، حدیث:۲۰۱؍۲۵۲۷ میں سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موصولاً مروی ہے۔) ۱۲: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مردوں سے بہت لوگ کامل ہوئے مگر عورتوں میں صرف مریم علیہا السلام آسیہ علیہا السلام اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کامل ہوئی ہیں، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضلیت عورتوں پر اس طرح ہے جس طرح ثرید کی تمام کھانوں پر ہے۔ ‘‘(صحیح بخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰه تعالی ﴿إذ قالت الملائکة یامریم...﴾، حدیث:۳۴۳۳۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل خدیجة رضي الله عنها، حدیث:۲۴۳۱۔) ۱۳: امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ام المؤمنین سیدہ خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ عنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے افضل ہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ عنہا سے بہتر چیز دے دی (یعنی میرا وجود )تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم ! مجھے اس نے ان سے بہتر نہیں دیا، کیونکہ اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب تمام لوگوں نے مجھے جھٹلایا تھا، اس نے اس وقت مجھے اپنا مال دیا جب لوگوں نے مجھے ہر چیز سے محروم کر دیا۔ ‘‘ (سیرة النبی صلى الله علیه وسلم لابن کثیر (۱؍۳۹۵)۔ مسند أحمد (۶؍۱۱۸)، وإسناده ضعیف، سند میں مجالد بن سعید راوی ضعیف ہے۔) ۱۴: ابن ابی داؤد رحمہ اللہ سے اس بارے میں کسی نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کا سلام پہنچایا جبکہ سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو جبرئیل امین علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ عزوجل کا سلام پہنچایا، توافضل واعلیٰ تو خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہوئیں۔ کہا گیا کہ فاطمۃ الزھرا ء افضل ہیں یاان کی والدہ محترمہ ؟ تو انہوں نے کہا : ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بضعہ پر کسی دوسرے کے بضعہ کو فضلیت نہیں دے سکتے۔ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ عنہا بنت خویلدہیں۔ ۱۵: امام سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہماری پسند اور ہمارا ایمان ودین یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سب سے افضل ہیں پھر ان کی ماں خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ۔ علامہ علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’خلاصہ یہ ہے کہ حیثیات مختلف ہیں، روایات ایک دوسرے سے متعارض ہیں، مسئلہ ظنی ہے، توقف کرنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں، لہٰذا اس مسئلہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہی بہتر ہے۔ ‘‘ ہمارے نزدیک اس بارے میں واضح اور صحیح موقف وہی ہے جو صحیحین کی روایات میں ہے کہ سیّدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر ہیں۔ اسی طرح سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ، سیّدہ فاطمۃ الزہراء کی والدہ ہونے کی وجہ سے ان سے زیادہ مقام و مرتبہ رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم