شمائل ترمذی - حدیث 165

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ،حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ: طَبَخْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِدْرًا وَقَدْ كَانَ يُعْجِبُهُ الذِّرَاعُ فَنَاوَلْتُهُ الذِّرَاعَ ثُمَّ قَالَ: ((نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ)) ، فَنَاوَلْتُهُ ثُمَّ قَالَ: ((نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ)) فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَمْ لِلشَّاةِ مِنْ ذِرَاعٍ فَقَالَ: ((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ سَكَتَّ لَنَاوَلْتَنِي الذِّرَاعَ مَا دَعَوْتُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 165

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں ’’سیدنا ابوعبید (ابوعبیدۃ ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے(گوشت کی ) ایک ہنڈیا پکائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زراع ( بونگ ) کا گوشت بہت پسند تھا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بونگ پیش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ اور زراع دو، میں نے دوسری پیش کی۔ پھر فرمایا: مجھ اور زراع دو، تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک بکری کے کتنے زراع ہو تے ہیں ؟ تو فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم خاموش رہتے تو جب تک میں طلب کر تا جاتا تم مجھے زراع دیتے ہی رہتے۔ ‘‘
تشریح : حدیث الباب سے کئی فوائد حاصل ہو تے ہیں : ۱: جانثارانِ نبی رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کیا کرتے تھے۔ ۲: طعام میسر ہو تو سیر ہو کر کھایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزراع تناول فرمائے اس پر بظاہر ایک اعتراض یہ وار ہو تا ہے کہ گذشتہ روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لحم اور خبز سے کبھی سیر ہو کر تناول نہیں فرمایا، جبکہ اس روایت میں ہے کہ دوزراع تناول فرمائے شارحین حدیث نے اس اعتراض کو اس طرح دور کیا ہے کہ سابقہ روایات میں یَوْمَیْنِ مُتَتَا بِعَیْنِ یَا فِيْ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ کی نفی ہے مطلقاً ایک وقت کے شبع کی نفی نہیں کی گئی جبکہ حدیث الباب میں ایک وقت کی بات ہے یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہوئے ہوں۔ ۳: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قسم کھانے کا اندازمعلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’والذي نفسي بیدہ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کے الفاظ سے قسم اٹھاتے تھے ۴: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور، بکری کے بازو اگرچہ دوہو تے ہیں لیکن فرمایا : اگرتم خاموش رہہ کر مجھے دیتے رہتے تو وہ ختم نہ ہو تے حتی کہ میں مطالبہ کرنا چھوڑ دیتا۔ کھانے میں کثرت وزیادت اور برکت سے متعلقہ دیگر معجزات بھی احادیث میں مذکور ہے: ٭ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں چند کھجوریں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تھیلی ہاتھ میں لی اور فرمایا: دس دس آدمیوں کو دستر خوان پر بلاتے جاؤ اور پھر یہی چند کھجوریں ایک لشکر نے تناول فرمائیں۔ نیز حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی اس تھیلی سے کھجوریں کھاتے رہے، حتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دورِ زریں گزر گیا پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سوا دوسالہ دورِ خلافت آیا تو پھر بھی اس تھیلی سے کھجوریں ختم نہ ہوئیں، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت آیا تو سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس تھیلی سے خود بھی کھاتے رہے اوروں کو بھی کھلاتے رہے حتی کہ سیدنا عثمان ذوالنورین کا دورِ خلافت آیا اور اس تھیلی سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کئی وسق نکال چکے تھے۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے وقت جب افراتفری پھیلی تو کسی نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ تھیلی چھین لی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس تھیلی کے چھن جانے کا بڑا افسوس ہو ا۔ تب انہوں نے فرمایا : لوگ آج ایک غم ( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت ) میں مبتلا ہیں جبکہ مجھے دوغم ملے ہیں ایک میری تھیلی چھین جا نے کا غم اور دوسرا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا غم۔( سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب مناقب أبي هریرة رضي الله عنه، حدیث: ۳۸۳۹۔ وقال: حسن غریب۔) اس معنی میں ان کا ایک شعر ہے ؏ لِلنَّاسِ هَمٌّ وَليِ هَمَّانِ هَمُّ الْجِرَابِ وَهَمُّ الشیخ عُثمْان ٭ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے گھر کا واقعہ جب انہوں نے چند آدمیوں کے لیے ایک بکری اور چند روٹیوں کے آٹے کا اہتمام کیا پھر تیرہ چودہ سو کے لشکر نے اسے سیر ہو کر تناول فرمایا۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب غزوة خندق، حدیث: ۴۱۰۱، ۴۱۰۲۔ صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعه غیره إلی دار...، حدیث:۲۰۳۹۔) ٭ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک پیالہ ملیدہ تیار کیا جیسے تمام اہلِ صفہ اور دیگر لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔ (صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب فی ادخال الضیفان عشرة عشرة، حدیث:۵۴۵۰۔ صحیح مسلم (۹۴؍۱۴۲۸)۔ مسند أحمد (۳؍۱۴۷)۔ سیرة النبي صلى الله علیه وسلم لابن کثیر (۳؍۴۱۲)۔) ٭ سید نا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھوک سے نڈھال سرِ راہ بیٹھے اس لیے ایثار ونفقہ کی آیات کا مفہوم دریافت کر رہے ہیں تا کہ کوئی میری حالت دیکھ کر مجھے کھانا کھلا دے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فورًا پہچان لیا اور فرمایا : ابوہریرہ ! بھوک سے نڈھال ہو؟ عرض کیا : جی ہاں۔ پھر اپنے ساتھ لے گئے اور تلاش بسیار کے بعد دودھ کا ایک پیالہ ملا، جو اکیلے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کفایت کر سکتا تھا لیکن فرمایا : ابوہریرہ ! اہلِ صُفّہ کو بلالاؤ، پھر تمام اہلِ صُفّہ نے سیر ہو کر وہ دودھ کا پیالہ پیا۔ بعد ازاں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی خوب سیر ہو کر نوش ِ جان کیا۔ (صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلى الله علیه وسلم وأصحابه، حدیث:۶۴۵۲۔) ٭ سیدنا سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پیالے میں گوشت آیا تو صبح سے رات گئے تک لوگ اسے کھاتے رہے۔( مسند أحمد (۵؍۱۸)۔ سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب ماجاء في آیات نبوة النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۳۶۲۵ وقال: حسن صحیح۔) وغیرذالك۔ فلیراجع إلی کتب المعجزات من یشاء التفصیل۔
تخریج : یہ حدیث دیگر شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ مسند أحمد بن حنبل (۳؍۴۸۴،۴۸۵)، سنن دارمي(المقدمة۱؍۴۴)، امام ھیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو مجمع الزوائد (۸؍۳۱۱) میں نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اسے امام احمد اور طبرانی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے، ان دونوں کے راوی الصحیح کے راوی ہیں سوائے شہر بن حوشب کے، اسے کئی علماء نے ثقہ قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تقریب التھذیب میں فرماتے ہیں شہر بن حوشب صدوق، کثیر الاوھام والا رسال ہے لیکن اس حدیث کا ایک شاہد عبدالرحمان بن ابی رافع عن عمتہ عن ابی رافع مرفوعا ً موجود ہے جسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے المسند (۶؍۸) میں امام طبرانی رحمہ اللہ نے المجعم الکبیر او ر ابن سعد نے طبقات (۱؍۱۹۳) میں نقل کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ لہٰذا یہ حدیث اپنے شواہد کی وجہ سے صحیح لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کا ایک شاہد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے جسے ابونعیم رحمہ اللہ نے دلائل النبوۃ میں ذکر کیا ہے۔اسی طرح یہ روایت صحیح بخاری میں اسود عن عبداللہ کے طریق سے متصل ہے۔ حدیث الباب سے کئی فوائد حاصل ہو تے ہیں : ۱: جانثارانِ نبی رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کیا کرتے تھے۔ ۲: طعام میسر ہو تو سیر ہو کر کھایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزراع تناول فرمائے اس پر بظاہر ایک اعتراض یہ وار ہو تا ہے کہ گذشتہ روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لحم اور خبز سے کبھی سیر ہو کر تناول نہیں فرمایا، جبکہ اس روایت میں ہے کہ دوزراع تناول فرمائے شارحین حدیث نے اس اعتراض کو اس طرح دور کیا ہے کہ سابقہ روایات میں یَوْمَیْنِ مُتَتَا بِعَیْنِ یَا فِيْ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ کی نفی ہے مطلقاً ایک وقت کے شبع کی نفی نہیں کی گئی جبکہ حدیث الباب میں ایک وقت کی بات ہے یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہوئے ہوں۔ ۳: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قسم کھانے کا اندازمعلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’والذي نفسي بیدہ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کے الفاظ سے قسم اٹھاتے تھے ۴: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور، بکری کے بازو اگرچہ دوہو تے ہیں لیکن فرمایا : اگرتم خاموش رہہ کر مجھے دیتے رہتے تو وہ ختم نہ ہو تے حتی کہ میں مطالبہ کرنا چھوڑ دیتا۔ کھانے میں کثرت وزیادت اور برکت سے متعلقہ دیگر معجزات بھی احادیث میں مذکور ہے: ٭ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں چند کھجوریں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تھیلی ہاتھ میں لی اور فرمایا: دس دس آدمیوں کو دستر خوان پر بلاتے جاؤ اور پھر یہی چند کھجوریں ایک لشکر نے تناول فرمائیں۔ نیز حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی اس تھیلی سے کھجوریں کھاتے رہے، حتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دورِ زریں گزر گیا پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سوا دوسالہ دورِ خلافت آیا تو پھر بھی اس تھیلی سے کھجوریں ختم نہ ہوئیں، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت آیا تو سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس تھیلی سے خود بھی کھاتے رہے اوروں کو بھی کھلاتے رہے حتی کہ سیدنا عثمان ذوالنورین کا دورِ خلافت آیا اور اس تھیلی سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کئی وسق نکال چکے تھے۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے وقت جب افراتفری پھیلی تو کسی نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ تھیلی چھین لی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس تھیلی کے چھن جانے کا بڑا افسوس ہو ا۔ تب انہوں نے فرمایا : لوگ آج ایک غم ( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت ) میں مبتلا ہیں جبکہ مجھے دوغم ملے ہیں ایک میری تھیلی چھین جا نے کا غم اور دوسرا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا غم۔( سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب مناقب أبي هریرة رضي الله عنه، حدیث: ۳۸۳۹۔ وقال: حسن غریب۔) اس معنی میں ان کا ایک شعر ہے ؏ لِلنَّاسِ هَمٌّ وَليِ هَمَّانِ هَمُّ الْجِرَابِ وَهَمُّ الشیخ عُثمْان ٭ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے گھر کا واقعہ جب انہوں نے چند آدمیوں کے لیے ایک بکری اور چند روٹیوں کے آٹے کا اہتمام کیا پھر تیرہ چودہ سو کے لشکر نے اسے سیر ہو کر تناول فرمایا۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، باب غزوة خندق، حدیث: ۴۱۰۱، ۴۱۰۲۔ صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعه غیره إلی دار...، حدیث:۲۰۳۹۔) ٭ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک پیالہ ملیدہ تیار کیا جیسے تمام اہلِ صفہ اور دیگر لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔ (صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب فی ادخال الضیفان عشرة عشرة، حدیث:۵۴۵۰۔ صحیح مسلم (۹۴؍۱۴۲۸)۔ مسند أحمد (۳؍۱۴۷)۔ سیرة النبي صلى الله علیه وسلم لابن کثیر (۳؍۴۱۲)۔) ٭ سید نا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھوک سے نڈھال سرِ راہ بیٹھے اس لیے ایثار ونفقہ کی آیات کا مفہوم دریافت کر رہے ہیں تا کہ کوئی میری حالت دیکھ کر مجھے کھانا کھلا دے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فورًا پہچان لیا اور فرمایا : ابوہریرہ ! بھوک سے نڈھال ہو؟ عرض کیا : جی ہاں۔ پھر اپنے ساتھ لے گئے اور تلاش بسیار کے بعد دودھ کا ایک پیالہ ملا، جو اکیلے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کفایت کر سکتا تھا لیکن فرمایا : ابوہریرہ ! اہلِ صُفّہ کو بلالاؤ، پھر تمام اہلِ صُفّہ نے سیر ہو کر وہ دودھ کا پیالہ پیا۔ بعد ازاں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی خوب سیر ہو کر نوش ِ جان کیا۔ (صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلى الله علیه وسلم وأصحابه، حدیث:۶۴۵۲۔) ٭ سیدنا سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پیالے میں گوشت آیا تو صبح سے رات گئے تک لوگ اسے کھاتے رہے۔( مسند أحمد (۵؍۱۸)۔ سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب ماجاء في آیات نبوة النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۳۶۲۵ وقال: حسن صحیح۔) وغیرذالك۔ فلیراجع إلی کتب المعجزات من یشاء التفصیل۔